*موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی قم* میں ہفتہ وحدت کے عنوان سے منعقدہ محفل میں پیش.کئے گئے اشعار
برائے دین نبی کھل چکا تھا سرخ کفن
سرائے دہر میں ابلیسیت تھی خیمہ زن
تمام ہونے کو تھی لَو چراغ وحدت کی
خزاں کی نذر ہوا تھا شہادتوں کا چمن
نفاق و کفر سے سازش ہوئی تو کرنے لگی
ہوائے نفس بھی پیدا فضائے دیں میں گھٹن
دیارِ عشق میں حرص و ہوس کا موسم تھا
لگا ہوا تھا وفاوں کا آفتاب گہن
نوائے عشق پہ غالب تھے ساز ہائے طرب
لگائی شرک نے آواز حق پہ تھی قدغن
اٹھا پھر ایسے میں اک پیر مرد ابنِ بتول
نحیف زار بظاہر، تھا اصل میں آہن
لرزرہے تھے صنم خانہِ جہاں کے رکن
بتوں کے دیس میں اک بت شکن تھا جلوہ فگن
یہ جانتا تھا وہ توحید آشنا غازی
کہ کائنات ، درونِ بشر کو ہے درپن
وہ ماورائے طبیعت سے کھینچ لایا مدد
تھے شش جہاتِ جہاں جب بنے ہوئے دشمن
علی کے عشق میں مالک کی مثل ہر لحظہ
مثالِ آئینہ اعمال تھے برائے سخن
صد آفرین خمینی بفیض مصحفِ حق
شکست دے گئی ہر شیطنت کو تیری لگن
یہ سِر بھی کردیا عالم پہ روز سا روشن
علی کے نام سے ہوتی ہے سہل کیسے کھٹن
ترے تفکر حق سے جہاں ہوا بیدار
اسی سے سینہ باطل کی بڑھ رہی ہے گھٹن
ہر ایک دشمن حق سے مقابلے کے لئے
جہاں پسند ہوا ہے تمہارا چال چلن
ترا عمل سے مسلمان ہوگئے بیدار
ترے طفیل ہی راہ جہاد ہے روشن
بنایا وحدت امت کو تو نے اپنا شعار
کہ اب لباس پہ اسلام کے پڑے نہ شکن
یہ انقلاب ہے تیرے ہنر کا ایک نشاں
جنجھوڑ ڈالا ہے جس نے ہرایک خفتہ تن
صائب جعفری
قم المقدس
۲۱ اکتوبر ۲۰۲۱
میانِ آدم و ابلیس جو ازل سے چھڑا
وہ معرکہ ہے ابھی تک زمیں پر برپا
ہر ایک دور میں حق والے جان دیتے رہے
ہر ایک دور میں حق خوں سے سرخرو ٹھہرا
ڈٹے رہے سر میدانِ حق نبی لیکن
یہ جنگ پہنچی سرِ کربلا تو راز کھلا
نشانِ ہمت و صبر و رضا ہے نام حسین
مقاومت کا ہے مظہر زمینِ کرب و بلا
زمینِ کرب و بلا ہے، زمین عالم کی
ہر ایک روز ہے مانند روزِ عاشورا
عرفہ ہے عبادات کی توقیر کا دن ہے
انسان کے کردار کی تعمیر کا دن ہے
جوبن پہ ہےزُخَّارِ کرامات الٰہی
یہ خاک کا اکسیر میں تغییر کا دن ہے
عید الاضحیٰ
دینے پیغامِ محبت شمس ابھرا عید کا
ہو مبارک سب کو دن اک اور آیا عید کا
ایک دوجے کے گلے لگ جاو نفرت چھوڑ کر
یوں مناو مل کے خوشیاں ہے زمانہ عید کا
جب ہند کے بت خانے میں اسلام تھا محبوس
ہوتی نہ تھی تشریک مسلمانوں کو محسوس
اسلام سے عاری تھے مسلمانوں کے افکار
افرنگ کے پھندوں میں سیاست تھی گرفتار
بیدار شو.......
ازقلم صائب جعفری