کسی کے بنتے ہیں معبود بے زباں پتھر
کسی.کے ہاتھ پہ ہوتے ہیں کلمہ خواں پتھر
نگاہ شوق بناتی ہے قیمتی ورنہ
نگاہ عقل میں پتھر ہیں.بے گماں پتھر
مجھ ایسا کون پرستار ہوگا وحدت کا
صنم کدے میں ہے دل، دل میں ہے نہاں پتھر
وبال جان ہی بن جائے گا کمال سخن
نصیب سے جو ہوئے اپنے دودماں پتھر
دعائے نیم شبی رائیگاں نہیں جاتی
یہ شہریار کا مصرع ہے کیا گراں پتھر
تمہارے نام کی جس دم صدا لگاتا ہوں
تو سرخرو مجھے کرتے ہیں.مہرباں پتھر
بناوٹی ہے محل اور جھونپڑی کا فرق
سبھی کے آخری گھر کا ہے جب نشاں پتھر
صائب جعفری
۲۹ ستمبر ۲۰۲۲
قم ایران
جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار
مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے
عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون
خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون
خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون
آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون
تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون
بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون
حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون
راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون
ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون
جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون
۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران
غزل
گر خدا وند کو خدا کرلیں
زندگی موت سے جدا کرلیں
زندہ لاشیں سمجھ نہ پائیں گی
چلئے مردوں سے کچھ گلا کر لیں
غیر کے ساتھ بات دور کی ہے
کاش ہم خود سے ہی وفا کر لیں
دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گلزار نہیں
ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں
حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز
بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں
یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے
آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں
اگر دل میں بسا تیرے خدا ہے
تو پھر دنیا میں کس کو ڈھونڈتا ہے
مجھے تقدیر سےبس یہ گلا ہے
کہ جو قسمت میں لکھا تھا ملا ہے
خوشی کا گھر ہے یا ماتم کدہ ہے
تمہیں اس خانہ ویراں سے کیا ہے
آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلاکر
بیٹھا ہوں مدتوں سے بستی نئی بسا کر
ان تیز آندھیوں میں طوفانی بارشوں میں
دل کا چراغ رکھوں کس طرح سے بچا کر