عید غدیر خم تمام مسلمانوں کو مبارک ہو
شب گذشتہ قم میں کی ایک محفل کے لئے لکھی اور پڑھی گئی طرحی منقبت بمناسبت عید غدیر خم
مئے عشق کے خم لنڈھائے گئے ہیں
بہاروں کے نغمے سنائے گئے ہیں
علی کی ولایت کا اعلان کرکے
منقبت
جو چل رہا سلیقے سے کاروبار تمام
ہے کائنات کا مولا پہ انحصار تمام
ثناء علی کی بیاں کر نہیں سکے گا کبھی
نہ لے جو مدح کو قرآن مستعار تمام
منقبت
نہالِ دل نے مہکائے بجائے خود ثناء کے پھول
مئے الفت نے رنگیں کر دئیے عشق و ولا کے پھول
فلک نازاں زمیں ساداں فضائیں گل فشاں ہیں آج
مہکتے ہیں چمن میں صنعتِ رب علا کے پھول
منقبت
جو نقش پہ حیدر کے چلتا نظر آتا ہے
انساں وہ فرشتوں سے بالا نظر آتا ہے
کعبہ سے جو لپٹا ہے حیدر کی عداوت میں
ساحل پہ کھڑا ہوکر پیاسا نظر آتا ہے
اوّل ہے جو خلقت میں افضل ہے جو خلقت سے
کچھ عقل کے اندھوں کو چوتھا نظر آتا ہے
منقبت
ہے راستہ خدا سے یہی اتصال کا
تابع عمل ہو عشقِ علی کے خیال کا
انسان قدسیوں سے سوا پا گیا کمال
قطرہ پیا جو عشق کے آبِ زلال کا
منقبت
خدا کے گھر سے اٹھا ہے خمار حیدر کا
ہوا حرم کو رواں مے گسار حیدر کا
خزاں کو راہی ملکِ عدم بنانے کو
سنارہی ہے قصیدہ بہار حیدر کا
عالم کون کی تعلیل علی جانتے ہیں
لوحِ محفوظ کی تحلیل علی جانتے ہیں
نور بر دوش ہے کعبہ کی زمیں ، تو قدسی
آپ کے نور کی تجلیل علی جانتے ہیں
اس لئے گود میں احمد کی سنایا قرآں
قبلِ تنزیل بھی تاویل علی جانتے ہیں
یاعلی جب کہا، کہا نہ ہوا
آج تک ایسا سانحہ نہ ہوا
کھکھلاتی جدارِ کعبہ پھر
ایسا مولود دوسرا نہ ہوا
انعکاسِ صفاتِ رب کے لئے
ان سا کوئی بھی آئینہ نہ ہوا
مصرع ہزار بیت میں یہ انتخاب ہے
عیدِ غدیر حکمِ رسالت مآب ہے
روشن ہوا ہے جس سے مرا ماہتابِ فکر
عشق علی کا سینہ میں وہ آفتاب ہے
جو گوشِ فکر سے ٹکرائی گفتگوئے امیر
خیال جانے لگا خودبخود بسوئے امیر
خدا کا شکر ہے باقی ہوں اپنی فطرت پر
کہ پاک طینتِ آدم ہے جستجوئے امیر
یوں لفظ مستعار ہیں قرآن کے لئے
لکھنی ہے منقبت شہِ ذیشان کے لئے
تعمیر کرکے کعبہ یہ کہنے لگے خلیل
تیار ہوگیا ہے یہ مہمان کے لئے
جو عشق میں حیدر کے گرفتار ملے گا
اللہ و محمد کا وفا دار ملے گا
جو عزمِ ولایت کا علم دار ملے گا
باطل سے وہی بر سرِ پیکار ملے گا
شمیمِ ارم گنگانے لگی
علی کے قصیدےسنانے لگی
برآتی جو دیکھی مراد وجود
جدارِ حرم مسکرانے لگی
حیات بخشی ہر اک شے کو رب نے آب سے ہے
اور آب آب کی قائم علی کی آب سے ہے
کلامِ حق ہی نہیں منتسب بہ نقطہِ باء
تمام عالمِ امکاں اس انتساب سے ہے
حقیقتِ علوی ہے یہ سرِّ فیضِ خدا
مرتضیٰؑ کی امامت پر ایماں دین و مذہب کا رکنِ رکیں ہے
صاحبِ امر رب کی اطاعت نہ ہو تو دین کامل نہیں ہے
یہ بڑے ظرف کے مرحلے ہیں معترض کیوں میرا نکتہ چیں ہے
رب کے ممدوح کی مدح کرنا کام یہ ہر کسی کا نہیں ہے
وقارِ زیست علی محورِ حیات علی
دیار عشق میں حق کی تجلّیات علی
شہود و شاہد و مشہودِ کائنات علی
ہے کنزِ مخفی خدا کنزِ بیِّنات علی