۱. رقیب کرکے مدارات خوش نہیں ہونگے
برے ہوں اچھے ہوں حالات خوش نہیں ہونگے
۲. مرے بغیر تو خوش ہیں تمام لوگ مگر
مجھے خبر ہے مرے ساتھ خوش نہیں ہونگے
۳. بتا دے کون سا اعزاز مرے پاس نہیں
مگر یہ لوگ مرے ہاتھ خوش نہیں ہونگے
۴. میں ہاتھ لگ گیا ان کے تو شوق کی خاطر
نکال لیں گے وہ جذبات خوش نہیں ہونگے
۵.بہت سے جھوم اٹھیں گے ہماری غزلوں پر
مگر یہ ذات کے بد ذات خوش نہیں ہونگے
۶.یہ ہند فطرت و قصاب طینت اے وائے
کلیجہ کھائیں گے دن رات، خوش نہیں ہونگے
۷. اناڑیوں کا بنا ہوں حریف جانتا ہوں
یہ مات کھائیں یا دیں مات خوش نہیں ہونگے
۸.رہے یہ دل کی جو دل میں بہت ہی اچھا ہے
کہ آپ کرکے ملاقات خوش نہیں ہونگے
۹.بہار رت سے ہیں نالاں مرے چمن کے گلاب
بلا کی برسی جو برسات خوش نہیں ہونگے
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس
بزم استعارہ کی آج کی ہفتہ وار نشست میں پیش کی گئی تازہ غزل
ایسا ہوا تھا اک بار احساس
میرا نہیں تجھ کو یار احساس
میرا یقیں ہے اب بھی نہیں ہے
زر کے جہاں میں بے کار احساس
تیرے لئے تھے تیرے لئے ہیں
عزت، محبت، اشعار، احساس
پھر آج جیسا شاید نہ ہوگا
حساسیت سے دوچار احساس
آنکھوں کے حلقے خود کہہ رہے ہیں
ہے ذہن پر تیرے بار احساس
لیکن تمہیں شرم آتی نہیں ہے
کرنے لگے اب اغیار احساس
کیا کیا گذرتی ہے گل پہ لیکن
ذرہ نہیں کرتا خار احساس
سجدہ بہر صورت لازمی ہے
گرچہ نہیں اب دیں دار احساس
پینا نہیں تو بھرتے ہیں کیوں جام
کرتے نہیں کچھ مے خوار احساس
اس وقت تک مٹ جاتا ہے سب کچھ
ڈستا ہے بن کر جب مار احساس
بولی لگاؤ کوئی کھری سی
میں بیچتا ہوں بیدار احساس
اچھی ہیں سب کی فن کاریاں پر
صائب ہے تیرا شہکار احساس
صائب جعفری
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس
انا کا خول توڑ کر اگرچہ کچھ بکھر گیا
مگر بفیضِ عشق میں حقیتاً سنور گیا
رہ گیا عشق جو ناکام تمنا بن کر
رہ گئی نوعِ بشر ایک تماشہ بن کر
شاہ بن کر وہ ملا ہو یا گدا سا بن کر
مجھ سے ہر بار ملا ہے وہ پرایا بن کر
نہ پاوں اب بھی منزل تو ستم ہے
مرے قدموں سے منزل دو قدم ہے
میں خود پوچھتا رہتا ہوں اکثر
کتابِ دل میں آخر کیا رقم ہے
فروغِ حسن سے دل کی کسک کا دور ہوجانا
کہاں ممکن شبِ دیجور کا کافور ہوجانا
کب آگہ تھا جمال ِ حسن اپنی قدر و قیمت سے
سکھایا عشق ہی نے حسن کو مغرور ہوجانا
ابن انشاء کے مصرع پر تضمین
تم کو کیا ہے چندا چاند
میں جانوں اور میرا چاند
تیری پروا کس کو یار
"سب کا اپنا اپنا چاند"
بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے
کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے
بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم
خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے
1. ہے یہ نہاں آپ کی تحریر میں
ظلمتیں پنہان ہیں تنویر میں
2.تیشہِ فرہاد سے پوچھے کوئی
کیا ہے دھرا زلف گرہ گیر میں
3.اٹھ کے وہ لیتا ترے دامن کو کیا؟
دم ہی کہاں تھا ترے نخچیر میں
ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا
نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا
...
مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے
پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا
.....
پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر
کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا
عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا
کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا
ــــــــــــــــــــــــــــ
جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش
اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ سخاوت اگر افلاک کریں
میرا حصہ خس و خاشاک کریں
یہ ہو خوں نابہ فشانی کا اثر
نالے پتھر کو بھی نم ناک کریں
سنا تھا ہوتی ہیں از بسکہ بے ضرر آنکھیں
مگر بنا گئیں اس جسم کو شرر آنکھیں
تمام قصہ ہجر و وصال کی تلخیص
مہ تمام، خنک رات ،رہگذر آنکھیں
کبھی جو قصہِ حسرت سنانا پڑتا ہے
زمیں کو بامِ فلک سے ملانا پڑتا ہے
ہوس کو جلوہِ جاناں کی آرزو کے لئے
دل و نظر کو بہت آزمانا پڑتا ہے