کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


لفظ  ومعنی نے حکایات نے دم توڑ دیا،

بات ہی بات میں ہر بات نے دم توڑ دیا

پارسا پھر سے چلا جانبِ زنداں دیکھو

پھر زلیخا کی مدارات نے دم توڑ دیا

ہچکیاں  لے کے اگلتا رہا وہ خوں شب بھر

آخری ہچکی تھی جب رات نے دم توڑ دیا

میں نہ کہتا تھا ترے بس کا نہیں ہے یہ مریض

دیکھ لے تیری ہدایات نے دم توڑ دیا

کتنی چاہت سے سجائے تھے در و بام مگر

شمع کے ساتھ ہی جذبات نے دم توڑ دیا

ضو فشاں ہوگیا خورشید غمِ تنہائی

شامِ تقریبِ ملاقات نے دم توڑ دیا

یوں تو لاکھوں ہی شکایات تھیں محسن لیکن

پھر ہوا یوں کہ شکایات نے دم توڑ دیا

اکتوبر ۲۰۱۱، کراچی پاکستان

 

 جس وقت یہ غزل لکھی تھی اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ زمین ساغر صدیقی کی ہے لکھنے کے بعد جب سوشل میڈیا پر ارسال کی تو

موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/04/22
ابو محمد

saieb ki ghazal

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی