کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

فلسفہ نزول بلاء (مضمون)

Monday, 13 May 2019، 11:26 PM


فلسفہ نزول بلاء

) بالخصوص ابتلائے صالحین 

تحقیق: صائب جعفری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


خلاصہ:

  امتحانات الہی اور نزول بلا ایک مہم مسئلہ ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہر دور میں ہے ۔بالخصوص وہ امتحانات جو خدا وند کریم نے اپنے اولیاء سے لئے ان کا سبب اور فلسفہ کیا ہے؟  خدا عالم کل ہونے کے باوجود آخر کیوں امتحان لیتا ہے ؟اور ان امتحانات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟۔اس تحقیق میں امتحان اور نزول بلا کے عالم مادہ کا خاصہ ہونے کے عنوان سے زیادہ بحث نہیں کی گئی کیوں کہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر دقیق تحقیق کی ضرورت ہے اس تحقیقی میں حتیٰ المقدور کوشش کی گئی ہے کہ عوام الناس میں امتحان و بلا سے متعلق رائج سوالات کا جواب مقالہ کی حدود اور وسعت کو مد نظر رکھ کر دیا جائے اور اپنے بیان پر آیت اور روایت کے ذریعے ثبوت فراہم کیا جائے اور اس بات کو واضح کیا جائے کہ اولیائے الہی کا امتحان گناہگار بندوں کے امتحان سے علیحدہ ہوتا ہے ہر چند ان کے مراتب خدا  کی جانب سے ان کو اول عنایت ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کو کسوٹی پر کسا جاتا ہے تاکہ لوگ جان لیں کہ خدا نے جو فیصلہ اپنے علم کے مطابق کیا تھا وہ درست تھا اور اولیاء انہی مراتب کے حقدار تھے۔ اس مقالہ میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ امتحانات و آزمائشات کے فوائد اور اثرات کو بھی کسی حد تک واضح کیا جائے  اور یہ امر روشن ہوجائے کہ تمام مصیبتیں اعمال قبیحہ کا نتیجہ نہیں ہوتیں ۔

مقدمہ

ابتلأ و بلا کا مفہوم امتحان کے مساوی جانا جاتا ہے اور اس مسٔلہ کی حقیقت بظاہر مخفی ہے اور سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ خدا آخر امتحان کیوں لیتا ہے؟ کیا خدا ہمارے باطن کو جاننا چاہتا ہے اس حال میں جبکہ اس کو ہمارے ظاہر اور باطن کی پوری پوری اطلاع ہے اور وہ ہمارے تمام مخفی اعمال حتیٰ ہمارے ارادوں اور نیتوں سے بھی با خبر ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کے علم میں ہے پھر اس کو ہمارا امتحان لے کر ہمیں مبتلائے مصیبت کرکے کس چیز کے بارے میں جاننا ہے؟ کائنات کا کوئی ذرہ اس سے پوشیدہ نہیں ہے وہ انسان کا خالق ہے اور اس کے ظاہر باطن سے آگاہ ہے پھر کس چیز کا امتحان؟ اگر امتحان اور مصیبت کو اس بات سے متصل مان لیا جائے کہ جو کچھ بھی اس دنیا میں سرد و گرم ہمیں در پیش ہے وہ سب ہمارے اپنے اعمال قبیحہ کے نتائج ہیں تو پھر انبیأ و صالحین اور آئمہ ہدیٰ علیھم السلام اور اولیائے الٰہی جو گناہوں سے منزہ ہیں انکو کس لئے سخت امتحانات میں ڈالا گیا؟ خدا انسان کے تمام اسرار و رموز سے آگاہ ہے اور غنی علیٰ الاطلاق ہے تو اس کو اپنے بندوں کو آزمانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اور خدا وند متعال حکیم ہے اور اسکی صفت حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہ ہو تو پھر ان امتحانات اور بلاؤں کے شکنجے میں آخر کیا حکمت پوشیدہ ہے؟

اس سوال کا ابتدائی جواب تو اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ جب ہم یہ مانتے ہیں کہ خدا حکیم ہے اور اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور اس بات کو بھی باور کرتے ہیں کہ اگر یہ بلائیں خدا کی جانب سے ہیں تو ان میں ضرور بالضرور حکمت پوشیدہ تو یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر کام میں پوشیدہ حکمت کا ہمیں علم ہو اور ہر امر جو اس عالم میں پیش آئے ہم اسکی علّت کو بھی جانتے ہوں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے کہ تمام باتوں کا علم خدا کے پاس محفوظ ہے اور وہ بھول چوک کا شکار نہیں ہوتا[1] اور یہ ضروری بھی نہیں کہ جو کچھ ہمیں درپیش ہے اس کی وجہ بھی ہم جانتے ہوں۔ یہ شبہہ اور سوال در اصل اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ہم موضوعِ ابتلائے الٰہی کو انسانی مفہوم ابتلا و امتحان کی بنیاد پر پرکھتے ہیں اور انسانی ذہن میں ابتلاء و امتحان کا مفہوم کسی کام یا چیز جس سے وہ جاہل ہے اور جس حقیقت سے ناآشنا ہے اس کو تجربہ اور آزمائش کے ذریعہ معلوم بنانا ہے یعنی مجہول کو معلوم بنانے کے تجربے کو انسان آزمائش اور امتحان سے تعبیر کرتا ہے۔ انسان ان تجربات و آزمائشات کے ذریعہ بہت ہی محدود معنی میں حقیقت تک پہنچتا ہے لیکن کنہ حقیقت سے دور رہتا ہے لیکن فلسفہ ابتلائے الٰہی نہ کشف حقیقت ہے نا ہی نیاز و حاجت کا پورا کرنا اور نہ ہی  کسی مجہول کو معلوم بنانا کیونکہ اللہ رب العزت اس عالم کے ظاہر و باطن پر محیط ہے اور تمام عالم کا ظاہر و باطن اس کے لئے یکساں ہے۔ جو کچھ انسانوں کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ اسکا جاننے والا ہے۔ اسی لئے قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے  و اسرّوا قولکم او اجھرو بہ انّہ علیم بذات الصدور الا یعلم من خلق و ھو اللطیف الخبیر.[2]) اور تم اپنی باتوں کو آہستہ کہو یا بلند آواز کے ساتھ خدا تو سینوں کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ اور کیا پیدا کرنے والا نہیں جانتا جبکہ وہ لطیف بھی ہے خبیر بھی(۔اسی طرح ایک اور مقام پر رب العزت فرماتا ہے کہ و ان ربک لیعلم ما تکن صدورھم وما یعلنون وما من غائبۃ فی السمأِ والارض الاّ فی کتاب مبین۔[3] )اور آپ کا پروردگار وہ سب جانتا ہے جس کو ان کے دل چھپائے ہوئے ہیں یا جس کا یہ اعلان کر رہے ہیں۔ اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں جس کا ذکر کتاب مبین میں نہ ہو(۔ اسی طرح سور فرقان میں ارشاد باری تعالی ہے کہ و کفیٰ بہ بذنوب عبادہ خبیرا۔)  وہ بندگان کے گناہوں سے آگاہی میں بس ہے(۔[4]

 جب خدا انسان اور تمام عالم کے بارے میں آگاہ ہے تو پھر امتحان و ابتلأ کی حکمت اور سرِّ نہاں یہ ہے کہ امتحان کے ذریعے انسان کی ذاتی قابلیتوں کا، جو خدا نے اس کے خمیر میں گوندھ دی ہیں، اظہار ہواور نیک لوگوں کی عظمت اور بدکاروں کی پلیدی اور برائی آشکار ہو جائے اور حق باطل سے جدا ہوجائے۔ لہذا امتحان الہی کا مقصد افراد کی وضعیت کے بارے میں جاننا نہیں بلکہ انسان کی چھپی ہوئی صلاحتیوں اور اس کے حقائق کو عنیت بخشنا ہے۔ ابتلائے الٰہی کی حقیقت  ہے  لیمیز اللہ الخبیث من الطیّب۔[5] )تاکہ خدا خبیث کوپاکیزہ سے علیحدہ کردے( اور انسان ثواب و عقاب کا حقدار قرار پا سکے اور یہ غرض و غائتِ ابتلأ نا علم الٰہی سے متصادم ہے نا ہی حکمت الٰہی پر اس سے کوئی حرف آتا ہے رہا یہ سوال کہ صالحین پر بلا اور مصیبتیں کیوں نازل ہوئیں (جو کہ ہمارا اصل موضوع ہے) اس کا جواب ان شاء اللہ اس کے مقام پر دیا جائے گا۔

استاد شہید مرتضیٰ مطہری اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ایک وقت ہم کسی چیز کی آزمائش کرتے ہیں تاکہ مجہول کو معلوم بنا لیں اس کام کے لئے ہم کوئی میزان و مقیاس مقرر کرتے ہیں مثلاً ترازو کے پلڑوں میں کسی چیز کو تول کر ہم اس بات کا اندازہ کرتے ہیں کہ اس چیز کا وزن کتنا ہے؟ لیکن ترازو صرف اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ جسم کا وزن کتنا ہے اس کی کمی یا زیادتی میں ترازو مؤثر نہیں ہے بلکہ وزن کو کم یا زیادہ کرنے کے لئے ہمیں کوئی دوسرا فعل انجام دینے کی ضرورت ہے اسی طرح امتحان کے ایک اور معنی بھی ہیں اور وہ یہ کہ قوت کو فعل کے زمرہ میں لانا اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا۔ خدا جو مشکلات و شدائد کے ذریعے آزمائش کرتا ہے وہ اس معنی میں ہے کہ ان کے ذریعے فرد کو، جس کمال و سعادت کا وہ اہل ہے اس تک اس کو پہنچا دیا جائے۔ فلسفہ شدائد و ابتلاء صرف وزن کو تولنا اور کمیت کا اندازہ کرنا نہیں ہے بلکہ وزن کو کم یا زیادہ کرنے اور کیفیت کو بلند درجہ پر پہنچانے کے کا ذریعہ ہے[6]۔

 

فصل اوّل۔ کلیات و مفاہیم

۱۔ مفہوم ابتلأ

 ابتلأ باب افتعال کا مصدر ہے اور بلا کے مادہ سے مشتق ہے خود بلا اور اسکے مشتقات ۳۷ مقامات پر قرآن میں ذکر ہوئے ہیں لغت میں ابتلأ کا مطلب امتحان، تجربہ، پردہ اٹھانا، آزمائش اور کشف کے ہیں[7] راغب نے مفرادات میں کلمہ بلاء کے معنی بتدریج پرانا، بوسیدہ اور فرسودہ ہوجانے کے کئے ہیں اور اس کے معنی تداوم و تکرار بھی بیان کئے گئے ہیں[8] بعض محققین اور لغت شناس اس بات کے معتقد ہیں کہ لغت میں مندرج معنی اور قرآن کا لفظ بلاء اور اس کے مشتقات اور اس کے ہم معنی الفاظ کا استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بلاء و ابتلأ کے معنی تغییر اور تحوّل کا ایجاد کرنا، کے ہیں اور یہ معنی عام بھی ہیں اور جامع بھی اس تعریف کے مطابق ابتلأ کے دیگر معنی یعنی امتحان، اختیار، تجربہ وغیرہ جو قرآن میں استعمال کئے گئے ہیں سب کے سب مصادیق کے بیان کے لئے ہیں نہ کہ کلمہ کے معنی کے بیان کے لئے۔[9]  اسی بنا پر  ولنبلوکم بشیٍٔ  من الخوف[10] )ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف سے آزمائیں گے ( کے دقیق معنی یہ ہوئے کہ ہم تمہارے حالات اور امور زندگی میں تحول و تغییر ایجاد کریں گے اس تحوّل کا مقصد انسان کے اوصاف و خصوصیات کی شناخت بھی ہو سکتی ہے اور انسانی استعداد کا رشد بھی، اور یہ  دونوں امور ابتلأ کا جز ہیں۔

۲۔ مفہوم ابتلأ خود قرآن کی نگاہ میں

قرآن کریم نے ابتلأ کے مسئلہ کو ایک سنت الٰہی کے طور پر بیان کیا ہے قرآنی مفاہیم فتنہ، امتحان، تمحیص و تمییز وغیرہ اس کے ساتھ ساتھ کہ ان کے اپنے جداگانہ لطیف معنی ہیں، باہم مربوط اور ہم معنی استعمال ہوئے ہیں اور سنت الٰہی یعنی بندوں کی آزمائش کو بیان کرتے ہیں اگرچہ با اعتبار کلی امتحان سے متعلق آیات ایک ہی بحث پر مشتمل ہیں اور ایک ہی جہت کو بیان کرتی ہیں مگر ہر آیت اپنے بیان کے لحاظ سے ایک خاص موضوع کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے اسی بنا پر ہم ان آیات کو دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

 ۱۔۲- پہلا حصّہ

وہ آیات جو مسئلہ ابتلأ کو ایک موضوع کلی کے طور پر بیان کرتی ہیں اور امتحان کی عمومیت کو ہر بشر ہے لئے ثابت کرتی ہیں۔

 ۱۔ سورہ مومنون میں قوم نوح علیہ السلام کے عبرت آموز واقعہ کو بیان کرنے اور اسکو قدرت الٰہی کی عظیم نشانی سے تعبیر کرنے بعد خدا اپنے پیامبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی فرماتا ہے  ان فی ذٰلک لآیاتٍ و ان کنا لمبتلین۔[11]  )اس امر میں ہماری بہت سی نشانیاں ہیں اور ہم تو بس امتحان لینے والے ہیں(۔یعنی آزمائش و ابتلأ کسی زمانے یا گروہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ ایک قانونِ کلی اور سنت الٰہی ہے جو سب کے لئے ہمیشہ سے جاری و ساری  ہے۔

 ۲۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا و ھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوی و لیعلمن الکٰذبین ۔[12])کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوٹ جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور انکا امتحان نہیں ہوگا۔ بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا کہ ان لوگوں میں کون سچے ہیں اور کون جھوٹے(۔ اس آیہ ما فی ہدایہ کا سخت لہجہ اور شدید تنبیہ ہر انسان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہر انسان ہوشیار اور متوجہ رہے کہ اسے ہر حال میں امتحان الٰہی سے گذرنا ہے حتیٰ وہ لوگ بھی جو صالحین کے زمرے میں آتے ہیں تاکہ کوئی بھی شخص اپنے ایمان کے دعوی کی وجہ سے خود کو امتحانِ الہی سے محفوظ و مامون نا سمجھے۔ ان آیات میں پے در پے تاکیدات کا استعمال ایک طرف امتحان الٰہی کے قطعی ہونے پر دلالت کرتا ہے تو دوسری طرف اس موضوع کی حسّاسیت اور اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ مسئلہ ابتلا کوئی ایسی چیز نہیں جو مقابلہ کے امتحان کی مانند ہو جو ایک مرحلے اور ایک خاص زمانے مربوط ہو بلکہ امتحان الٰہی نا پیشگی اطلاع کے ہمراہ آتا ہے نا ہی اس کے زمانے کا طول مقرر ہے اور نہ ہی اسکی گنتی معین و محدود ہے بلکہ آیات الٰہی اس بات کی غماز ہیں کہ ابتلأ الٰہی کسی بھی وقت، کہیں بھی پیش آسکتی ہے۔

۳۔ الذی خلق الموت الحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا و ھو العزیز الغفور۔[13] اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہےوہ صاحب عزت بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے۔اس آیت میں مسئلہ امتحان کو با عنوان فلسفہ خلقت انسان بیان کیا گیا ہے اس آیت کی تشریح و توضیح سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کی زندگی اور موت دونوں ابتلائے الٰہی کے تحقق پذیر ہونے کا ذریعہ اور انسان کو امتحان کی میزان پر تولنے کا سبب فراہم کرتے ہیں ۔

۴۔ انا خلقنا الانسان من نطفۃٍ امشاج نبتلیہ فجعلنٰہ سمعیاً بصیراً ۔[14] )یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تا کہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے سماعت و بصارت والا بنا دیا(۔ یہاں نبتلیہ کی ضمیر انسان کی طرف پلٹتی ہے اور اس مراد خاص انسان نہیں بلکہ نوعِ انسان ہے۔ آیات کا یہ دستہ اس بات پر دلالت کرتا ہے امتحان الٰہی ایک سنتِ تغیر ناپذیر ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی پیدائش کا فلسفہ بھی ہے اور انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی اسی محور پر گردش کرتی ہے۔

۲۔۲- حصّہ دوم

وہ آیات الٰہی جو امتحان کی نوعیت اور کیفیت کو بیان کرتی ہیں ۔

۱۔ و نبلوکم بالشر والخیر فتنۃ و الینا ترجعون۔[15] )اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعے تم سب کو آزمائیں گے اور تم سب پلٹا کر ہماری بارگاہ میں لائے جاو گے(۔ یعنی  ہر انسان کو اچھائی اور برائی نیکی و بدی ہر دو طریقہ سے آزمایا جائے گا تاکہ جس وقت وہ خدا وندِ متعال کی بارگاہ میں پلٹ کر جائے اس پر حجت تمام ہو چکی ہو اور وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے جزا کا مستحق ٹھہرے۔

۲۔ و ما الحیاۃ الدنیا الاّ متاع الغرور لتبلون فی اموالکم و انفسکم ۔[16]  )اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکے کا سرمایہ ہے۔یقینا تم اپنے اعمال اور نفوس کے ذریعے آزمائے جاو گے(۔موارد ابتلا و امتحان کو بیان کرنے والی آیات میں سے ان دو آیات کا انتخاب عنوان خیر و شر اور اموال و انفس کی بنا پر کیا گیا ہے تاکہ وہ آیات جو ان سے مشابہ ہیں ان کے ضمن میں آسکیں جو عناوین ان آیات میں بیان ہوئے ہیں وہ عمومیت رکھتے ہیں اور تمام انسان ان سے بہرہ مندی یا محرومیت میں شامل ہیں معیشتی و اقتصادی سختیاں، گھریلو مسائل، عزت، دولت، جاہ و حشم، مقام و مرتبہ کا حصول اور ان کا ہاتھ سے نکل جانا ہر انسان کی زندگی میں وسیلہ امتحان ہیں۔ پہلے دستہ میں جو آیات بیان کی گئیں وہ امتحان کے حتمی ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور دوسرے دستہ کی آیات مختلف انسانوں کے لئے امتحان کی نوعیت و کیفیت کے مختلف ہونے کو بیان کرتی ہیں۔ بہر حال دونوں دستوں کی آیات سے امتحان ایک سنت الہی اور تمام بندوں کے حق میں جاری ہونے کی خبر ملتی ہے۔

۳- عمومیت[17] سنت آزمائش و امتحان

علم اصول کی معروف اصطلاح ہے کہ ما من عام الا و قد خص اگر اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی عام ایسا نہیں جو خاص نا ہو جائے تو یہ تعبیر درست نہیں ہوگی کیونکہ بعض عموم ایسے ہیں جو ناصرف خاص نہیں ہوتے بلکہ تخصیص ناپذیر ہیں جیسے فلسفہ و ریاضی کے کلیات اور بعض قرآنی بیانات جو عمومیت پر دلالت کرتے ہیں جیسے  کل نفس ذائقۃ الموت[18] )ہر نفس موت کا مزہ چکھے گا(  یا کل امری بما کسبت رہین[19] )ہر شخص اپنے اعمال کا گروہے(۔  لیکن اگر اس جملہ سے مراد یہ لی جائے کہ ہر عام قانون موارد کے اعتبار سے خاص ہو جاتا ہے تو عام کو خاص میں دامن میں سمیٹا جاسکتا ہے۔ سنتِ ابتلأ قرآن کے عمومی موضوعات میں سے ہے اور نوعِ انسانیت کے لئے ابتلأ بعنوان ابتلأ کسی تخصیص کی حامل نہیں ہے کیونکہ کوئی انسان بھی اپنی عقل، بلوغ، علم اور اختیار کی بنا پر اس عام قاعدہ امتحان و بلا سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

۴- آزمائش کا انسانی اختیار کے ساتھ رابطہ

ضروری ہے امتحان و ابتلأ کی بحث میں انسان کے اختیار و آزادی کے متعلق کچھ گفتگو ہو جائے اگرچہ یہاں انسان کے اختیار کے مسئلہ پر فلسفی و کلامی ابحاث کی گنجائش نہیں ہے مگر اجمالاً اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کیونکہ یہ انسان کا اختیار ہی ہے جو اسے دیگر موجوداتِ عالم سے ممتاز کرتا ہے اور قرآن کریم نے متعدد آیات میں انسان کے اختیار و قدرتِ عمل کو موضوع بنایا ہے اور اسی اختیار کو انسان کی خلقت کا تکوینی جز شمار کیا ہے اور یہی اختیار ہے جو خدا کے تشریعی احکامات کی بجاآوری کے لئے زینہ بنتا ہے اور انسان کے اخروی ثواب و عقاب میں تاثیر رکھتا ہے اس بارے میں خدا وند متعال کا ارشاد ہے  کلاً نمد ہٰؤلأ و ھٰؤلأ من ربک و ما کان عطأ ربک محظورا۔[20] )ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اُن کی اور ان کی سب کی مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے(۔ یہاں امداد سے مراد انسان کی قدرت انتخاب و عمل ہے جو نوعِ بشر کی خلقت کا جزِٔ تکوینی ہے اور اسی اساس پر اسکے لئے احکامات تشریعی وضع کئے گئے ہیں۔  اسی مقصد کو  یہ آیت بیان کرتی ہے  انا ھدینہٗ االسبیلَ اما شاکرا و اما کفورا۔ [21]  )یقینا ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی ہے چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا(۔

 قرآن کی نگاہ میں انسان کی قیمت و ارزش اسکی معرفتِ نفس یعنی ان صلاحیتوں اور قوتوں کو جاننے اور ان کے استعمال میں پوشیدہ ہے جو اسکے وجود کا حصّہ ہیں اسی لئے قرآن انسان کی سعادت و شقاوت کو خود اس کے اعمال کا عکس العمل اور نتیجہ کہتا ہے۔ انسان کا زوال و کمال اسی نعمت اختیار کے استعمال پر منحصر ہے کیونکہ صرف فاعل بالارادہ ہونا انسان کی شناخت کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کی ہویت کا تقاضہ اس کے ارادہ اور اختیار کا میدان عمل میں ظاہر ہونا ہے اور یہی اظہار اس بات کی خبر دیتا ہے کہ انسان سعید ہے یا شقی۔ لہٰذا یہ اختیار انسان کو پرکھنے کی کسوٹی ہے اور امتحان بھی در اصل انسان کے اختیار کا امتحان ہے اور اس میں کامیابی اسکے اپنے اختیار عملی  سے مربوط ہے۔

 

 

 

فصل دوم قرآنی فلسفہ ابتلاء

۱- قرآنی آیات کے پرتو میں فلسفہ ابتلأ

قرآن کریم کی وہ آیات جو موضوعِ ابتلا کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں قرآن ابتلأت الٰہی پر دو محوروں سے گفتگو کرتا ہے۔

(الف)۔ حقیقت و شخصیت بشر

(ب)۔ ثواب و عقاب اخروی افراد

قرآن کی نگاہ میں امتحان و بلا کا اہم ترین فلسفہ اور آزمائش کی حکمت، افراد کے چہرے سے نقاب کو الٹنا ہے یعنی ممتحن کی حقیقت کو نمایاں کرنا اور اسکی چھپی ہوئی مثبت اور منفی قوتوں اور صلاحیتوں کو ظاہر کرکے اس کے نفس کی پاکیزگی و خباثت کو آشکار کرنا ہے۔

۱۔۱- انسان ایک سرّ نہاں

 ابتلاء کے موضوع کی اہمیت کی وضاحت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم انسان کی صلاحتیوں اور اسکی پوشیدہ حقیقتوں اور اس کے پیچیدہ نفس کے بارے میں علم حاصل نا کرلیں۔ خدا نے انسان کو نفس کو کچھ ایسا پیچیدہ بنایا ہے کہ خود انسان بھی اپنی مختلف ابعاد کو درک کرنے قاصر ہے اسکا نفس اور روح اُس وسعت کے حامل ہیں کہ انسان اور اسکی روح کی جامع تعریف ممکن نہیں ہے اور حقیقت نفس و روح کا بیان ہماری عقل فکر اور اندیشہ سے بہت بالا ہے قل الروح من امر ربی  [22]   )کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کا امر ہے( اور فقط خدا ہے جو اسکی حقیقت سے آگاہ ہے کیونکہ  فانہ یعلم السرّ و اخفیٰ [23] )وہ تو راز سے بھی مخفی تر باتوں کا جاننے والا ہے(۔انسان خود اپنے نفس کی وسعت اور استعداد کو درک کرنے سے قاصر ہے اور بسا اوقات خود نہیں سمجھ پاتا کہ وہ حق پر ہے یا باطل پر لہٰذا وہ افراد جو ظاہراً اہل ایمان ہیں لیکن بباطن اہل نفاق ہیں ان کے واقعی چہرے کو عیاں کرنا ان کی حقیقتوں کو کھولنا صرف امتحان کے ذریعے ہی ممکن ہے تاکہ شیطان صفت لوگوں کا باطن کھل کر سامنے آجائے۔تاریخ کی ورق گردانی بھی ہمیں کئی ایسے افراد کا پتہ دیتی ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ ہر جہاد ہر جنگ میں بے جگری سے لڑے لیکن جب اقتدار اور ولایت امیر المومنین کے درمیان آن پڑی تو حق سے رو گردان ہوگئے اس کی واضح مثال طلحہ و زبیر جیسے افراد کی ہے وہ زبیر جس کیو اہل بیت کا فرد شمار کیا جاتا تھا اور جناب زہرا نے بھی ان کی وثاقت کی توثیق کی تھی مگر امتحان کی کسوٹی پر ان ک بال و پر جھڑ گئے اور وہ اہل بیت سے نکل کر دشمنوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔

شیطان مردود جس نے سالہا سال خدا کی عبودیت اور بندگی کا ڈھونگ رچایا اور اپنے تکبر کو دوسروں حتیٰ اپنے آپ سے بھی چھپائے رکھا امتحان کے موقع پر اس کی حقیقت آشکار ہوگئی۔ سنت الٰہی اور آزمائش کی خصوصیات میں فرد کی شخصیت کو منظر عام پر لانا ہے اور انسان میں طوفان و تحول برپا کرنا ہے اور کم ہی لوگ ایسے ہیں جو امتحان کے موقع پر لغزش سے دوچار نہ ہوئے ہوں یہاں تک کہ وہ لوگ جو سبقت ایمان کے دعوی دار تھے اور جنھوں نے خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمایت کی تھی کارزار جنگ میں ابتلائے الٰہی میں گرفتار ہوئے تو تو نصرت الٰہی کے وعدے اور اپنے اعتقادات کی نسبت بھی شک کا شکار ہوگئے۔  و اذ ذاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا۔[24] )اور دہشت سے نگاہیں خیرہ ہونے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگےاور تم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلاء ہوگئے(۔یعنی جس وقت امتحان اور شدائد اپنے عروج پر ہوں تو مومن بھی شک کا شکار ہوجاتے ہیں اور ظاہر ہوجاتا ہے ایمان نے کس کے قلب میں جڑیں کتنی مضبوط کی ہیں اور یہ واقعیت بحرانی کیفیات میں انسان کے ردِّ عمل سے مربوط ہے بہت کم ہیں وہ افراد جو بحرانی حالات اور سختیوں میں ثابت قدم رہے ہوں اور جب دو راہے پر آن کھڑے ہوئے ہوں تو راہِ مستقیم و صراطِ خداوندی پر استوار رہے ہوں اسی لئے قرآن کریم نے امتحان و بلا کو کبھی فتنہ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اپنے معنی کے لحاظ سے کلمہ فتنہ سونے کو بھٹّی میں تاپ کر کندن بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور فتنہ، مومن کے ایمان کو ناخالصیت سے علیحدہ کر کے واضح کردیتاہے اور مومن کے اعمال و رفتار کے ذریعہ اس کی ہویت اور شخصیت کو نمایاں کردیتا ہے۔  اگر امتحان و آزمائش کی سختیاں اور دباؤ نہ ہو تو انسان کی قوتیں بالقوہ ہی رہ جائیں اور کو بالفعل ہونے کا موقع نہ ملے ۔[25]

۲۔۱- ابتلا انسان کی حقیقت کا سراغ ہے

انسان کی نفسانی کرامت و رذیلت امتحان کی دشوار گذار گھاٹیوں میں سفر کرنے کے طفیل ہی کھل کر سامنے آتی ہے اور اس کی اخلاقی اقدار اس وقت تک روشن نہیں ہوتیں جب تک وہ مشکلات کے سمندر میں غوطہ خوری نہ کرلے۔ غربت وافلاس اور بیماری کے مزہ کو چکھے بغیر کوئی بھی تندرستی اور ثروت کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا اسی طرح جب تک وہ روحانی مشکلات میں گرفتار نہ ہو معنویات کے مفہوم سے نا آشنا رہتا ہے۔ بلا و مصیبت مفاہیم اخلاقی کی قیمت کو بیان کرتے ہیں اور گمراہی و ریا کے پردوں کو چہروں سے ہٹا دیتے ہیں اور فرد کی حقیقت کو کما حقہ بیان کرتے ہیں۔ اگر امتحان کا وجود نہ ہو تو انسانی فضائل و کمالات جیسے اخلاص، صبر، شجاعت و سخاوت وغیرہ اپنی وقعت کھو دیں۔ یہ ابتلاء کے ہی اثرات ہیں جو انسان کو انسان بننے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اسکی اخلاقی قدریں امتحان کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہیں۔ قرآن کریم متعدد آیات میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے چند نمونہ درج ذیل ہیں۔

۱۔۲۔۱- مومن اور منافق کے درمیان امتیاز کا سبب

 و لنبلونکم حتیٰ نعلم المجاھدین منکم و الصابرین و نبلوا اخبارکم۔[26] )ہم یقینا سب کا امتحان لیں گے تاکہ دیکھیں تم میں جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون لوگ ہیں اور اس طرح تمہارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں(۔ یعنی تمہیں جنگ اور دیگر ناخوشگوار واقعات کے ذریعے ضرور آزمایا جائے گا تاکہ مومنین اور مجاہدین کو جھوٹوں سے علیحدہ کیا جاسکے اور مومنین اور منافقین کی صفیں نمایاں ہو جائیں وگرنہ  ہر دعویدار کو سچا  مان کر جزاء دینا ہوگی جو عدل الہی اور حکمت کے خلاف ہے۔اسی طرح کتاب کریم میں ارشاد باری ہے  قل أتعلمون اللہ بدینکم واللہ یعلم ما فی السماوات و ما فی الارض ۔[27]) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم خدا کو اپنا دین سکھا رہے ہوجب کہ وہ آسمان اور زمین کی ہر شے سے با خبر ہے(۔ یہاں حتی نعلم سے مراد یہ نہیں کہ خدا اس لئے امتحان لینا چاہتا ہے کہ وہ تمہاری حالت اور کیفیت کو جاننا چاہتا ہے بلکہ خدا تو ظاہر اور باطن سے آگاہ ہے بلکہ امتحان کا مقصد یہ ہے کہ تمہاری صداقت و دیانت کو میدان عمل میں آزمائے اور ظاہر داروں کو رسوا کرے اور انسانی حقیقت پر پڑے پردوں کو چاک کردے۔ اس حقیقت کو قرآن ان الفاظ میں اور وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے  کہ ام حسب الذین فی قلوبھم مرض ان لن یخرج اللہ اضغانھم و لو نشأ لأرینٰکھم فلعرفتھم بسیماھم ولتعرفنھم فی لحن القول واللہ یعلم اعمالکم ۔[28]) کیا جن لوگوں کے دلوں میں بیماری پائی جاتی ہے  ان کا خیال یہ ہے کہ خدا ان کے دلوں کے کینوں کو باہر نہیں لائے گا؟اور ہم چاہتے تو ان کو دکھلا دیتے اور آپ ان کو چہرے کے آثار ہی سے پہچان لیتے اور انکی گفتگو کے انداز سے تو بہر حال پہچان ہی لیں گےاور اللہ تم سب کے اعمال سے خوب با خبر ہے(۔

ان آیات کا اصل مخاطب منافقین ہیں کہ بھلا کس لئے وہ خود کو فریب دیتے ہیں جو کہتے ہیں عمل اس کے خلاف کرتے ہیں لہذا وہ یہ جان رکھیں خدا انکی حقیقت کو جانتا ہے اور پیامبر اور مومنیں بھی انکی حالت سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ خدائی امتحان کے مراحل میں کھل کر لوگوں کے سامنے آجائیں گے اور ان کی حقیقت سے پردے اٹھ جائیں گے۔ ولیبتلیٰ اللہ ما فی صدورکم و لیمحص ما فی قلوبکم و اللہ علیم بذات الصدور۔[29] )خدا تمہارے دلوں کے حال کو آزمانا چاہتا ہے اور تمہارے ضمیروں کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے اور وہ ہر دل کا حال بخوبی جانتا ہے(۔

۲۔۲۔۱-  پاکیزگی اور پلیدی کا ظہور

 ابتلأ الٰہی کا ایک فلسفہ اور حکمت اظہار پاکیزگی و پلیدیِ قلبِ فرد ہے تاکہ جو کچھ لوگ دل میں خدا اسکے رسول اور مومنین کی نسبت پنہاں کئے بیٹھے سب منزل شہود اور آجائے اور کتنے پانی میں اس کی اس کو اور دوسروں خبر ہو جائے یخفون فی انفسھم ما لا یبدون لک۔[30] )یہ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھپائے ہوئے ہیں جنکا آپ سے اظہار نہیں کرتے(۔ یعنی جو لوگ وعدہ الٰہی اور شہادت کی اہمیت اور حقیقت سے نابلد ہیں اور رسول خدا کی نسبت شاکی ہیں خدا نے ان کے خبث باطن کو آشکار کرنے اور ان کے شیطانی خیالات کو کھول کر بیان کرنے کے لئے کفار کے ساتھ جنگ و جدال کا حکم صادر فرمایا اور ان آیات و احکام کے ذریعے ریاکاروں اور منافقوں کے باطنی اسرار کی نمائش کا سامان مہیا کیا۔ان  آیات اور ان جیسی دوسری آیات کی اساس پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ ابتلا از نظر قرآن انسانی شخصیت کا واضح ہونا ہے اور امتحان وہ کسوٹی ہے جس پر ہر انسان کو پرکھا جاتا ہے اور اس کے ایمان کے خلوص اور کھوٹ کا اندازہ کیا جاتا ہے اور اسکی چھپی ہوئی حقیقتیں روشن ہو جاتی ہیں روحانی طہارت اور پلیدی جو بھی انسان کے باطن میں نہاں ہے وہ کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

۳۔۲۔۱-  خدا کے حضور حالت تضرع [خضوع و خشوع] کا پیدا ہونا

  قرآن اکثر مقامات پر امتحان کو خشوع و خضوع کا ذریعہ جانتا ہے اور سابقہ امتوں پر نزول بلا کا سبب یہ بیان کرتا ہے کہ وہ سرکشی اور بغاوت سے ہاتھ اٹھا لیں اور ان کے دل نرم ہو جائیں  ولقد ارسلنا الی امم من قبلک فاخذنٰھم بالباسأِ و الضرّأِ لعلھم یتضرّعون ۔[31])   ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے، اس کے بعد انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلاء کیاکہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں(۔اسی طرح دوسری آیت میں خدا کا ارشاد ہے کہ  و ما ارسلنا فی قریۃ من نبیٍ الأّ اخذنا اھلھا  بالباسأِ و الضرّأِ لعلھم یضرّعون۔[32] )اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو بستی والوں کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلاء کیاکہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں(۔   لہذا روشن ہے کہ ابتلأ کے جملہ فلسفوں میں سے ایک تربیت اور انسان سازی ہے اور بلا اس بات کا سبب ہیکہ انسان کو سرکشی، فتنہ گری، انانیت اور فرعون منشی سے باز رکھے اور بندہ خدا کے حضور اپنے ضعف سے آگاہ ہو سکے اسی لئے خدا قرآن میں فرماتا ہے:  و لو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض۔[33] )اگر خدا تمام لوگوں کے رزق کو وسیع کردیتا تویہ ضرور زمین میں بغاوت کردیتے ( یعنی اگر انسان کو مال و ثروت سے نوازا جائے تو وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اس لئے خدا اکثر کو مال نہیں دیتا کم ہیں جن کو مال و ثروت کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے جس طرح مال دے کر امتحان لیا جاتا ہے بعنیہ مال واپس لیکر بھی امتحان لیا جاتا ہے بندگان الٰہی مال ،اولاد اور نفس غرض ہر طرح آزمائے جاتے ہیں تاکہ یہ سب راستے ان کو خدا کے حضور تضرع و زاری پر آمادہ کریں۔ ولنبلونکم بشیٍٔ من الخوف والجوع و نقص من الاموال و الانفس والثمرات و بشرّ الصابرین۔[34]  )اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور تھوڑی بھوک اور اموال و نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گےاور اے پیغمبر آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں( ۔ یعنی آزمائش بہر صورت ہر ایک کی ہوگی اور ہر ہر نوعیت سے ہوگی اب جو اس میں صبر پیشہ ہوا اور ثابت قدم رہا اس کے لئے بشارت ہے۔

۴۔۲۔۱- انسانی توانایوں کا اظہار

امتحانات الہی اور بلاوں کا نزول انسان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے اظہار کا ایک ذریعہ اور علوم و فنون کی ترقی میں مدد گار ہےکیونکہ انسان جب تک مصائب اور آلام سے روبرو نہ ہو اس کی توانائیاں اور قوتیں اس میں پنہان رہتی ہیں اور رشد کے مواقع فراہم نہیں ہوتے[35] انسانی زندگی کی مشکلات ہی تھیں جنہوں انسان کو نت نئی ایجادات کی جانب اکسایا لہذا انسان کی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے اس کا مصائب اور آلام سے پنجہ آزما ہونا ضروری ہے اور یہ حکمت الہی کے عین مطابق ہے  اسی جانب قرآن  کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے فَاِنَّ مَعَ اَلعُسرِ یُسرَا۔ اِنَّ مَعَ اَلعُسرِ یُسرَا۔ فَاِذَا فَرَغتَ فَانصَب وَ اِلیٰ رَبِّکَ فَارغَب۔[36]) بلاشبہ ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔بے شک ہر سختی کے ہمراہ آسانی ہے پس جب مہمات سے فراغات حاصل کرلو تو دوسری مہم کی جانب متوجہ ہو جاو اور اپنے پروردگار کی جانب متوجہ ہو(۔[37]

۵۔۲۔۱- بلا و مصیبت خود انسان کے اعمال کا نتیجہ

بعض آزمائشات اور مصبتیں جو انسان کی جانب رخ کرتی ہیں وہ مکافات عمل ہوتی ہیں جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے  و مأ اصابکم من مصیبۃٍ فبما کسبت ایدیکم و یعفوا عن کثیرا۔ [38] )اور تم تک جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی ہےاور وہ بہت سی باتوں کو معاف بھی کر دیتا ہے(۔ اسی طرح اسی کتاب ما فی ہدایہ میں ارشاد پروردگار عالمین ہے کہ  و لو ان اہل القریٰ آمنوا  و اتقوا لفتحنا علیھم  برکات من السماءو الارض۔ ولکن کذبوا فاخذناھم بما یکسبون )اگر آبادی والے ایمان لے آتے اور تقویٰ الہی اختیار کرتے تو ہم ان آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے ان کے لئے کھول دیتے مگر انہوں نے حق کی تکذیب کی اور ہم نے انہیں ان کے اعمال کے کیفر تک پہنچا دیا(۔[39]

ان آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ خدا کی جانب سے نازل ہونے والی بہت سی مصیبتیں اور عذاب خود انسان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں تاکہ دوسروں کے لئے عبرت کا باعث بنیں اور لوگ ایسے برے اعمال سے پرہیز کریں اور خدا کی جانب متوجہ رہیں۔

۶۔۲۔۱-  خواب غفلت سے بیداری

اکثر امتحانات خدا کی جانب سے تنبیہ کے  طور پر ہوتے ہیں تاکہ انسان ہوش کے ناخن لے اور اپنے پروردگار کی جانب واپس پلٹ آئے اور جس خواب غفلت میں وہ گرفتار ہے اس کا خاتمہ عمل میں آئے جیسے ارشاد خدا وندی ہے ولقد اخذنا آٔل فرعون بالسنین و نقص من الثمرات لعلھم یذّکّرون۔[40] )اور ہم نے آل فرعون کو قحط اور پھلوں کی کمی کی گرفت میں لے لیا شاید وہ اسی طرح نصیحت حاصل کر سکیں(۔  یعنی خدا نے فرعون والوں پر جو بلا نازل کی اس میں ان کے لئے یاد دہانی تھی اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کا عندیہ تھا ۔ امام صادق سے منقول ایک روایت ہے: جب خدا کسی بندہ کے لئے خیر کا ارادہ کرتا تو اس کو بلاؤں اور مصیبتوں میں گرفتار کردیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے بندہ استغفار کی جانب متوجہ ہو [41]۔ خدا کی نعمتوں میں غرق رہنے اور لذات و شہوات کی پرستش کے نتیجے میں انسان غفلت کا شکار ہوجاتا ہے اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتا ہے  اور معنویات سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یہ وہ چیز ہے جسکا مشاہدہ ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی میں بخوبی کر سکتے ہیں[42] اور اسی چیز کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ کذا ان الانسان لیطغیٰ ان راہ استغنیٰ ۔) جب انسان خود کو غنی پاتا ہے تو  سرکشی کرتا ہے([43] یعنی ناز و نعم کی زندگی انسانی بد اعمالیوں کا باعث بن جاتی ہے اور ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کو تنبیہ کی جائے  تاکہ اس کو راہ راست پر لانے کے لئے وسائل فراہم کئے جائیں اور اس پر حجت تمام ہو اسی لئے قرآن کریم بعض بلاوں کے نزول کا سبب اسی یاد دہانی کو قرار دیتا ہے  اسی طرح فرقان حمید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ  ظہر الفساد فی البر و البحربما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملویلعلھم یرجعون۔ خشکی اور   تری میں فساد برپا ہوگیا ان اعمال کی وجہ سے جو لوگ انجام دے رہے تھے، تاکہ خدا ان کے بعض اعمال کا نتیجہ ان کو دکھا دے شاید وہ خدا کی طرف رجوع کریں۔[44] پس بہت سی بلائیں انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور اخلاقی اقدار کو معاشرے میں رائج کرنے کے لئے نازل ہوتی ہیں تاکہ انسان  خدا کی جانب متوجہ ہو اور اپنی بد اعمالیوں سے دستبردار ہو کر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں  خدا کے اصولوں پر  کاربند ہو جائے۔

فصل سوم

فلسفہ درد و رنج صالحین اور اولیائے الٰہی کی زندگی میں

۱- سوالات:

خلقت انسان کی علت کے سوال کے جواب میں عموماً کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کو پہچانے اور اسکی پرستش کرے اور محمد و آل محمد علیہ و علیہم السلام کی معرفت حاصل کرے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں ان ہستیوں کی معرفت حاصل کرنے کے لئے خلق کیا گیا ہے تو ان ذوات مقدسات کو کس لئے سختیوں اور رنج و آلام میں گرفتار کیا گیا؟  انکو سخت ترین امتحانات اور آزمائشات سے کیوں گذارا گیا؟ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکا خاندان خدا کے محبوب ترین بندے اور انہی کے لئے ساری کائنات خلق کی گئی دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں سب سے زیادہ مصائب و آلام کا شکار بھی یہی خاندان ہوا خدا نے انبیا کو انسانیت کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا اور آئمہ علیھم السلام کو دین کی حفاظت ذمہ داری کی سپرد کی لیکن ان کو بد ترین وضعیت میں رکھا کیوں؟

۲- مختصر جواب

ان سوالات کا اجمالی جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ مخلوقات کی خلقت کا ہدف اور بلاخصوص انسان کی خلقت کا ہدف اسکو فضیلت و کرامت بخشنا ہے اور یہ ہدف شر اور بلا سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا ۔

۱۔۲- اولاً:

 جس عالم (دنیا) میں ہم زندگی گذار رہے ہیں عالم مادہ ہے اور مادہ کے خواص میں سے ایک تضاد کا وجود اور ناہمواری و نابرابری ہے جسکو شر سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ ارسطو نے کہا کہ دنیا میں موجود شرور عالم طبیعیت کا لازمہ ہیں کیونکہ اس عالم میں تزاحم اور تراحم، تضاد و توافق کا وجود ہے لہذا  مصبتیں اور بلائیں نازل ہونا  لازمی امر ہے اور ان سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے مگر یہ کہ عالم میں ایجاد کا عمل رک جائے اور یہ غیر ممکن ہے [45] کیونکہ اس صورت میں خیر جو جہان پر حاکم ہے اور شرور پر غالب ہے اس کا عمل دخل بھی رک جائے گا اور یہ حکمت الہی کےساتھ سازگار نہیں ہے[46]۔

۲۔۲- ثانیاً

یہی چیزیں جنکو شر کہا جاتا ہے ان کی خلقت کا اصل ہدف اور ان سے مقصود بالذات شر نہیں خیر ہے اور انکا شر نسبی ہے بقول شیخ طوسی علیہ الرحمہ '' شرور اضافی اور نسبی امور ہیں جن کا حساب مبتلاء و معین شخص کی نسبت سے کیا جاتا ہے اگر انہی شرور کو ہم ہستی کے ساتھ مقایسہ کریں تو یہ شرور ہر گز شرور نہیں بلکہ خیر محض ہونگے۔[47]

۳۔۲- ثالثاً

 یہ شرور بلا ئیں اور مصیبتیں انواع و اقسام کے فوائد اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں جیسے:

۔یہی شرور دنیا کی زیبائی کو نمایاں کرنے والے ہیں کیونکہ چیزوں کو ان کی اضداد کے ذریعے پہچانا جاتا ہے اگر بد صورتی کا وجود نہ ہو تو خوبصورتی اپنا مفہوم کھو دے۔

۔ یہ بلائیں اور شرور انسان اور جامعہ کی تربیت میں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں اور بلا اور نعمت دونوں نسبی ہیں ممکن ہے ایک شخص ایک چیز سے بہترین طریقہ سے بہرہ مند ہو اور اسکو نعمت سے تعبیر کرے جبکہ دوسرا شخص اسی چیز سے سوئے استفادہ کرے اس چیز کو خود اپنی اور دوسروں کی نظروں میں شر بنا دے۔

۳- مفصل جواب

خدا وند متعال نے اولیأ و صالحین انبیاء و آئمہ کو بلاء اور مصیبت میں گرفتار کیا کیونکہ ایک طرف بلا انسان کے رشد و نمو کا ذریعہ ہے اور اور اخلاق کی تکمیل کا باعث ہے اور دوسری جانب یہ ثابت کرنے کے لئے اولیا کو بلاؤں سے روبرو کیا کہ جن چیزوں کو انسان شر سمجھ رہا ہے ان کے بارے میں یہ واضح ہوجائے کہ وہ شر نہیں بلکہ نسبی امور ہیں اگر وہ واقعاً شر ہوتیں تو خدا اپنے خالص بندوں کو کبھی ان میں گرفتار نہ کرتا یہ جہاں اور اس کی موجودات و مخلوقات بذات خود نفع کی حامل ہیں اور ان کا نفع خود ان کے وجود کے لئے ہے بالخصوص انسان [48] کے لئے۔ جیسا کہ ہم حضرت ایوب نبی علیہ السلام کے واقعات میں دیکھتے ہیں کہ ان کو سخت ترین بیماریوں میں مبتلاء کیا گیا اگر یہ بیماریاں شر ہوتیں یا منفی اثرات کی حامل ہوتی تو خدا اپنے نبی کو ان میں مبتلاء نہ کرتا۔

مصائب، شدائد اور مشکلات وغیرہ، خوشبختی و سعادت کے راستے ہیں بالکل اسی طرح جیسے خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ  ذالک بان اللہ یولج اللیل فی النھار و یولج النھار فی اللیل و ان اللہ سمیع بصیر۔[49]  )یہ سب اس لئے ہے کہ خدا رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتاہے اور بے شک خدا بہت زیادہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے(۔یعنی جس طرح رات کے پردے سے دن نکلتا ہے اسی طرح شدائد و مشکلات میں انسان نکھرتا ہے اور اسکی شخصیت سامنے آتی ہے اور معروف ضرب المثل ہے ہر سیاہ رات کے بعد سویرا موجود ہے یہ آیت اور یہ ضرب المثل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح اجالہ، اندھیرے کے بطن سے پیدا ہوتا ہے مصائب و آلام بھی سعادت ابدی و دائمی کا پتہ دیتے ہیں اور جس طرح سپیدی اپنی مخالف یعنی سیاہی کی انحرافی شرائط سے بر آمد ہوتی ہے بعنیہ سعادت اور فضیلت انسانی بھی امتحان کی سختیوں کو تحمل کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ [50]

جرمن فلاسفر ہیگل کہتا ہے: شر اور مصیبت منفی خیالی امور نہیں ہیں بلکہ کاملاً واقعیت رکھتے ہیں اور با نظر حکمت، خیر و سعادت کا زینہ ہیں تنازع در اصل قانون ترقی ہے صفات حسنہ اور خوبیاں اس عالم کے ہرج و مرج اور دگرگونیوں میں ہی پروان چڑھتی ہیں اور تکامل پاتی ہیں اور انسان صرف راہ رنج و تحمل کے ذریعے ہی علویت کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔[51]جہان میں موجود بدصورتی اور برے لوگوں کا وجود اس بات کا باعث ہے ہے کہ خوبصورتی اور نیکی کو ان سے علیحدہ پہچانا جا سکے اگر جہان میں معاویہ کا وجود نہ ہوتا تو حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام کو ان کی تمام تر عظمت، منزلت اور قدر کے ساتھ ن پہچاننا دشوار ہو جاتا۔[52]

حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک نامہ میں بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف  کے نام لکھتے ہیں: ناز و نعمت میں زندگی بسر کرنا اور سختیوں سے دور بھاگنا کمزوری اور ناتوانی کا باعث ہے جبکہ اس کے برعکس زندگی کو سختیوں میں گذارنا یعنی سخت شرائط اور نا مساعد حالات میں گذارا کرنا انسان کو طاقت و قوت عنایت کرتا ہے اور چاق و چوبند بنا دیتا ہے ۔[53]

لہٰذا ثابت ہے کہ بلا و مصیبت اور نعمت دونوں امور نسبی ہیں اور ان کو دونوں کے ذریعے خدا اپنے بندوں کو آزماتا ہے مصائب بھی اس وقت نعمت میں تبدیل ہوجاتے ہیں جب انسان ان سے استفادہ کی درست راہ و روش ہے آگاہ ہو لیکن انسان اگر نزول بلا کے موقع پر جزع و فزع کرے اور ان سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے تو بلا اس کے لئے واقعی بلا و مصیبت بن جاتی ہے اور اس کو اوج کمال پر پہنچانے کے بجائے قعر مذلت میں دھکیل دیتی ہے۔ ممکن ہے کہ دنیا کی نعمات انسان کے رفاہ و سعادت کا باعث ہوں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دنیاوی نعمات و آسائشات اس کے لئے مایہ بے چارگی اور بدبختی بن جائیں کیونکہ نا فقرو فاقہ مستی مطلقاً بدبختی ہیں نا ہی مال و دولت خوشبختی محض، بلکہ کتنی ہی بلائیں فقر و غربت اور بھوک و افلاس کی سختیاں انسان کے تکامل و سعادت کا باعث ہیں اور کتنی ہی نعمتیں ہیں جن کے پیچھے بدبختی چھپی ہے اس لئے کہ نعمت اور مصیبت کا سعادت یا شقاوت کا باعث بننا انسان کے اپنے ردِّ عمل پر منحصر ہے۔ ممکن ہے ایک چیز ایک شخص کے لئے نعمت کا باعث ہو اور اسکو خوشحال کرنے کا وسیلہ ہو در عین حال وہی چیز دوسرے شخص کے لئے نقمت ہو اور اس کے لئے رنج و آزار اور تکلیف کا باعث ہو۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام امور نسبی ہیں [54] مثلاً بارش کا ہونا جو ایک نعمت الہی ہے مگر وہ شخص جس کے پاس خود اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے رہنے کو چھت میسر نہ ہو وہ اس بارش اور بالخصوص سرد دنوں اور راتوں کی بارش کو زحمت سمجھتا ہے اس کے اس خیال سے باران رحمت زحمت نہیں بن جاتی۔

 ۴- ابتلائے صالحین کی حقیقت

اس بات کے اثبات کے بعد کہ خیر و شر، نعمت و نقمت امور نسبی ہیں اور انسان ان کی موجودگی میں جیسا ردِّ عمل ظاہر کرتا ہے اسکو ویسا ہی نتیجہ مل جاتا ہے اور تمام مقدماتی اور تفصیلاتی ابحاثِ فلسفہ بلا کے آشکار ہوجانے کے بعد اب اس بات کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ انبیا، آئمہ صالحین، اولیائے الٰہی اور خدا کے مقرب بندوں کی  زندگی میں سختیوں اور بلاؤں کا وجود کیوں ہے؟

خدا وند عالم نے انسان کی تربیت اور پرورش کے لئے دو دستورات (تشریعی اور تکوینی) مقرر کئے اور دونوں دستورات کو شدائد، مشکلات اور مختلف النوع تکالیف سے مملو کیا۔ دستور اول یعنی دستور تشریعی میں عبادات اور اعمال و احکام کو واجب قرار دیا اور دستور دوم میں مصائب اور آلام و مشکلات کو راہ بشر میں ڈال دیااور ان دونوں کو آپس میں مخلوط کردیا کیونکہ یہ دونوں دستورات ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔ روزہ، نماز، حج، جہاد وغیرہ تکالیف شرعی ہیں اور ان سب میں مشکلات اور شدائد ہیں انھی مشکلات و شدائد میں ان امور کی انجام دہی پر کمر بستہ رہنا اور استقامت دکھانا تکامل نفس اور انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کا سبب ہے۔

بھوک، پیاس، خوف، جان و مال کا نقصان، بلائیں اور ابتلائات جو انسانی حیات میں تکویناً وجود میں آتے ہیں اور انسان کو اچانک گھیر لیتے ہیں اور ان سے فرار کی کوئی راہ ممکن نہیں ہی کمال یہ ہیکہ کہ انسان ان مشکلات میں گھر کر اپنے وظیفہ سے سر مو پیچھے نا ہٹے کیونکہ ان شدائد اور مشکلات کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔

انبیا و اولیا الٰہی بھی دیگر انسانوں کی مانند اسی جہانِ مادی کے باسی ہیں لہذا یہ ممکن نہیں ہے اس جہان پر حاوی قوانین مادہ سے بالا ہوجائیں اور زندگی بغیر رنج و مصیبت اور ابتلا و آزمائش کے بسر کریں کیونکہ بعض مصائب و آلام وہ ہیں جو مادہ کی خصوصیات کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں جیسے زلزلہ کا آنا، آندھی کا چلنا، قحط سالی اور اس جیسے دوسرے امور اگر اب اگر ان امور سے متعلق کوئی شخص یہ کہتا کہ یہ مصائب یہ رنج و آلام ان ہستیوں پر کیوں نازل ہوئے تو اس کو یہی جواب دیا جاسکتا ہے جو بھی اس عالم مادہ میں مادی جسم کے ساتھ داخل ہوگا اسکو ان مشکلات کو جھیلنا ہی ہوگا کیونکہ یہ خدا کا بنایا ہوا نظام ہے اور خدا نے زمین کو اسی نہج پر خلق کیا ہے اس میں یہ سب امور انجام پائیں گے اور اس میں اس بات کی کوئی قید نہیں کہ ان حادثات میں گرفتار ہونے والا بندہ  مقرب الٰہی ہو یا راندہ درگاہ خداوند متعال یہ امور سب کے لئے یکساں ہیں اور کسی کو اس میں تخصیص حاصل نہیں ہے۔

بعض دیگر بلائیں اور مصبتیں جو مادے کے لازمہ سے جدا ہیں وہ سنت الٰہی کے تحت ہیں اور سنت الٰہی میں تبدیلی نہیں ہوتی اور امتحان بھی ایک سنت الٰہی ہے اور اسمیں جو عمومیت پائی جاتی ہے اسکو ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ امتحان سنت خدا ہے اور اسکی عمومیت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام افرا کا امتحان ہو۔

نفس انسانی ہر لحظہ تکامل کی جانب گامزن ہے اور انسان کی سعادت اور اس کا کمال، روح کی ترقی میں پوشیدہ ہے لہٰذا اولیائے الٰہی کی روح کو کامل ترین ہونا چاہئے تاکہ انسان کامل کا مصداق بن سکیں اور یہ شدائد و مشکلات انسان کی ترقی کے ذرائع ہیں اس لئے انبیا و اولیا اور آٗئمہ کے امتحانات زیادہ سخت تھے کہ ان کی روح بالا ترین درجات کی حامل تھی اور احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جس وقت خدا بندے کے ساتھ خیرکا ارادہ کرتا ہے تو بلاوں کا رخ اس کی جانب موڑ دیتا ہے ۔[55]

۱۔۴- الطاف و عنایات خدا وندی

قرآن کریم کی آیات اور متعدد احادیث اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ  امتحانات الہی اور سختیاں ، اولیائے الہی کے لئے خدا کا خاص لطف و کرم ہوتی ہیں تاکہ خدا کی مدد ہمیشہ ان کے شامل حال رہے اور وہ کسی لمحہ خدا  کی جانب سے غفلت کا احساس نہ کریں۔ خدا فرماتا ہے   ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ و لما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مسھم الباساء و الضراء و زلزلوا حتیٰ یقول الرسول و الذین معہ متیٰ نصر اللہ الا ان نصر اللہ قریب۔)کیا تمہارا خیال ہے کہ تم آسانی سے جنت میں داخل  ہو جاو گے جب کہ ابھی تمہارے سامنے گذشتہ امتوں کی مثال پیش نہیں آئی جنہیں فقر و فاقہ اور پریشانیوں نے گھیر لیا  اور اتنے جھٹکے دئیے گئے کہ خود رسول اور ن کے ساتھیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ خدا کی مدد کب آئے گی؟تو آگاہ ہو جاو کہ خدا کی امداد بہت قریب ہے(۔[56]پس خدا اپنے نیک بندوں حتیٰ رسولوں کو  بھی آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ وہ خدا کی مدد کے ہر وقت منتظر رہیں اور خدا ان کی مدد کرتا رہے اور وہ اس عالم ہرج و مرج میں ہمیشہ خدا کو اپنی تکیہ گاہ بنائے رکھیں۔

۲۔۴- عشق خدا وندی سبب نزول بلاء

علمأ فرماتے ہیں اگر انسان اپنی زندگی کو بدی سے دور کرلے اور تقویٰ اختیار کرے تو حتماً وہ سختیوں اور شدید آزمائشات میں گرفتار ہوجائے گا اولیائے خدا پر جو بلائیں نازل ہوتیں ہیں وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ نہیں ہوتی کہ ان کے سبب وہ گناہوں کی پلیدی سے پاک ہوجائیں وہ تو گناہوں سے منزہ و مبرا ہوتے ہیں ان پر نازل ہونے والی بلاؤں کا ایک سبب ان کا عشق خداوندی ہے جو ان کو کشاں کشاں سوئے خدا لئے جا رہا ہوتا ہے اس عالم میں خدا ان کو ظاہری امتحانات میں گرفتار کرکے اپنی جانب بلند ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور یہ امتحانات ان کے درجہ کمال کے ارتقا کا سبب بنتے ہیں۔ امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی قدر ہے بلا ظالم کے لئے تادیب ہے مومن کے لئے امتحان ہے اور پیامبروں کے لئے مقام و درجہ ہے[57]۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا جب کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اسکو شدائد و مشکلات میں غرق کر دیتا ہے[58]  لہذا صالحین اور انبیا و الیائے الٰہی پر نازل ہونے والی بلا اور آزمائش لطف خدا اور محبت خدا کا نتیجہ ہے، انکے رشد و تکامل کا وسیلہ ہے۔ اس بنیاد پر اولیا الٰہی کی زندگی میں وجود بلا کو قہر الٰہی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ امتحانات و آزمائشات اور بلائیں رحمت الٰہی کے نظارے ہیں  جو ان میں جس قدر ثبات قدم دکھاتا ہے اسی حساب سے ارتقأِ معنوی پاتا ہے اور جو بھی صبر پیشہ رہتا ہے بشر الصابرین کا مصداق بن جاتا ہے۔

امام باقر سے منقول ایک حدیث ہے:خدا اپنے بندۂ مومن کی دلجوئی کرتا ہے تو تحفہ میں اس کے لئے بلا و امتحان بھیج دیتا ہے اسی طرح جیسے کو شخص سفر سے اپنے اہل و عیال کے لئے تحفہ بھیجتا ہے۔[59]سعد بن طریف فرماتے ہیں میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا ایسے میں جمیل ازرق داخل ہوا اور شیعوں کی مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا اور پوچھا کہ اسکا سبب کیا ہے کہ خاندان اہل بیت علیھم السلام کے دوستدار گوناگوں مسائل کا شکار رہیں اور سختیوں کے بند و بار میں زندگی گذاریں؟ امام علیہ السلام نے امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: ایک گروہ انہی سوالات کو لے کر امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ ابن عباس کے پاس آیا تھا اور راہِ حل کا تقاضہ کیا تو امام عالی مقام علیہ السلام نے ان کو یوں جواب دیا: خدا کی قسم غربت، افلاس، کسمپرسی، بلا اور قتل و غارت گری اونٹوں کے کے دوڑنے سے زیادہ تیز اور سیلاب کے پانی سے زیادہ سریع تر ہمارے دوستوں کی جانب بڑھتے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو جان لو کہ ہمارے دوستوں میں سے  نہیں ہو۔ [60]

امام صادق علیہ السلام کا فرمان والا صفات ہے کہ زیادہ تر بلائیں جو انسانوں پر نازل ہوتی ہیں وہ پہلے انبیا پھر ان کے جانشینوں اور ان کے پیروکاروں پر نازل ہوتی ہیں[61] پھر دوسروں کی جانب رخ کرتی ہے امتحان اور شدائد ، سمندر کی موجوں کی مانند ہیں انسان، جس طرح سمندر کی موجوں سے لڑ کر پیراکی سیکھتا ہے اسی طرح انسان کی روحانی تربیت اور ترقی اسی قدر ہے جیسا اسکا بلاوں سے سابقہ اور ان میں صبر و استقامت کا انداز ہے چونکہ خدا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ مومن مکمل رشد و تربیت حاصل کرے لہٰذا اسے امتحانات اور آزمائشات میں مبتلأ کرتا ہے تاکہ وہ اس سمندر کی موجوں سے لڑ کر تیرنا سیکھ لے اور رشد و کمال کی ممکنہ حد تک رسائی حاصل کر سکے۔

 ۳۔۴- موجب کرامت

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: بلا ظالم کے لئے ادب سیکھنے کا ذریعہ مومن کے لئے امتحان کا وسیلہ پیامبران کے لئے درجات کی بلندی اور اولیائے الٰہی کے لئے موجب کرامت ہے ۔[62]   یعنی صالحین پہلے ابتلاء کا مزہ چکھتے ہیں اس کے بعد عوام الناس کو ان امتحانات میں مبتلاء کیا جاتا ہے اور ظالم کے لئے امتحان ایک تنبیہ ہوتا ہے کہ اب بھی اپنے ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لے، مومن کے لئے یہ بلا و آزمائش خدا کی معنوی نعمات تک رسائی  کا ذریعہ، پیامبران الہی کے لئے یہ امتحانات ان کے معنوی درجات کی بلندی کا سبب اور خاصانِ کردگار کے لئے یہی امتحانات ان کی کرامت کے اظہار کا سبب ہوتے ہیں۔

۴۔۴- خدا کی بارگاہ میں مقام و منزلت کا سبب

 سلیمان بن خالد امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: بندہ مومن کا خدا کے نزدیک مقام و منزلت اور مرتبہ ہے اور اس مقام تک رسائی دو راہوں سے ممکن ہے ایک مال کا زیاں دوسرا جسمانی اور مادی مصیبتیں اور بلائیں[63]  اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نزدیک جو مقام اس کے بندوں کے لئے محفوظ ہے اس تک رسائی صرف ان ہی دو راستوں سے گذر کر ممکن ہے اور سنت الٰہی یہ ہے کہ ہر بندہ خدا تک پہنچنے کے لئے ان راستوں کو اختیار کرے تو اس میں تخصیص کی گنجائش نہیں وہ صالحین ہوں، آئمہ و انبیا علیھم السلام ہوں یا اولیائے الٰہی سب کو اسی راہ سے گذر کر خدا تک پہنچنا ہے۔ انبیا و صلحا پر مصائب کی شدّت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ خدا کے نزدیک کس قدر بلند مرتبہ کے حامل ہیں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: مومن کی بیماری اس کے لئے رحمت اور گناہوں سے پاک ہونے کا وسیلہ ہے اور کافر کے لئے یہی بیماری عذاب اور لعنت خدا ہے ۔[64]   عبداللہ ابن ابی یعفور کے واقعہ سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جسمانی عارضہ مومن کی روح کے لئے شفاء بخش اور مطاہر ہوتے ہیں  کہ جب عبد اللہ ابن ابی یعفور نے بیماری کی شدت کی امام صادق علیہ السلام سے شکایت کی امام علیہ السلام نے فرمایا'' اے عبداللہ اگر مومن یہ جان لے کہ اس کو مصائب کے بدلے میں کیا اجر و پاداش نصیب ہوگی تو وہ آرزو کرے گا کہ اس کا جسم قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔[65]

۱۔۴۔۴- نہج البلاغہ کا بیان

حضرت علی علیہ السلام ابتلائے اولیائے الٰہی کی آزمائشات و امتحانات کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر خدا بیت اللہ، مناسک حج کے مقامات(منی، صفا و مروہ وٖغیرہ) کو باغات اور نہروں اور سرسز و شاداب مقامات پر قرار دیتا اور آباد راہوں میں بناتا تو جس طرح آزمائش سادہ ہوتی اسکی جزأ بھی کم ہوتی خداوند متعال اپنے بندوں کو مختلف انواع و اقسام کی سختیوں سے آزماتا ہے اور بہت مشکلات اور سختیوں میں گھرا ہوا اپنی عبادت کی جانب بلاتا ہے اور شدائد و مشکلات میں گرفتار کرتا ہے تاکہ غرور اور خود پسندی کو  ان کے دلوں سے نکال کر اسکی جگہ فروتنی و انکساری کو ان کے دلوں کی زینت بنا دے اور اپنے فضل و رحمت کے دروازے ان پر کھول دے[66] اور ان کے لئے عفو و بخشش کا سامان فراہم کردے۔

۵۔۴- نمونۂ عمل

ایک اور اہم نکتہ جس کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ انبیا و اولیأ اور آئمہ کرام علیھم السلام پر بلائیں نازل ہونے کا ایک سبب ان کا بندگان خدا کے لئے نمونہ عمل ہونا ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا کی جانب سے جب کبھی  بندہ کو آزمائش در پیش ہو تو اسکو آزمائش کے ایام میں کس طرح زندگی گذارنا ہے اور امتحان میں کامیابی کے لئے اسے کس نہج پر عمل کرنا ہے۔  انبیا و آئمہ جو بندگان خدا کے لئے ہادی و رہبر ہیں اس امتحان کے مسئلہ میں بھی لوگوں کے لئے ہادی قرار پائیں اور لوگ ان کو دیکھ کر عمل کریں اور جزع و فزع سے خود کو بچائیں اور امتحان کے پہلے مرحلے میں ہی اپنے ایمان اور اعتقاد سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔

اولیائے الٰہی کا امتحان اس جہت سے بھی لیا گیا تاکہ واضح ہوجائے کہ امتحان الٰہی عمومیت رکھتا ہے اور اس معاملے میں کسی کے لئے بھی کسی قسم کی چھوٹ یا کوئی تخصیص و تخفیف نہیں ہے اور  یہ بھی ثابت ہو جائے کہ جن لوگوں کو قیامت کے دن جزائے خیر دی جائے گی اور ان کے نیک اعمال کا وزن دوسروں کے نیک اعمال کے وزن سے زیادہ ہوگا تو تقریق  اس بنیاد پر ہوگی کہ انہوں نے اس کا استحقاق دنیا میں ہی سخت ترین امتحانات دے کر حاصل کیا تھا۔ عمومیت امتحان الٰہی اس اعتراض کا جواب بھی ہے کہ اگر خدا کچھ لوگوں کو آزماتا اور کچھ کو نا آزماتا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ جن کو آزمایا نہیں گیا اگر ان کو بھی آزمایا جاتا تو وہ بھی عرصۂ امتحان میں دوسرے گناہگاروں کی طرح ناکام و نامراد ہوجاتے لہذا خدا نے صالح اور غیر صالح ، معصوم و عاصی ہر بندے کے لئے امتحان کو سنت کے طور پر جاری رکھا تاکہ محتمل سوالات اور اعتراضات کا پہلے ہی مرحلے پر سدِّ باب ہو جائے۔ اسی عمومیت کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے و لنبلونکم بشیءِ من الخوف و الجوعِ و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ و اولئک ھم المھتدون۔ )ہم یقیناً تمہیں کچھ خوف، تھوڑی بھوک اور اموال و نفوس اور ثمرات کی کمی  سے آزمائیں گے۔ اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی جانب پلٹ کر جانے والے ہیں ۔ ان کے لئے ان کے پروردگار کی جانب سے صلوات اور رحمت ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں([67]۔ اس آیت میں خدا نے امتحان کی عمومیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں واضح کیا ہے کہ امتحان الہی ایک ایسی سنت الہی ہے جس سے کوئی دامن نہیں بچا سکتا متقی و پرہیز گار ہو یا گناہگار خدا کی رحمت کا حصول اور اس کے نزدیک منزلت پانا امتحان پر موقوف ہے فرق صرف اس بات میں ہو سکتا ہے کہ گناہگاروں کے لئے یہ امتحانات اور بلائیں ان کے گناہوں کے محو ہونے کا سبب بن جائیں اور ان میں مبتلاء ہونے کے بعد خدا کی بارگار ہ میں پاکیزہ حالت میں پہنچیں  جب کہ صالحین اپنی منزلت کو اور بلند کرسکیں اور خدا کا قرب حاصل کر سکیں۔

اما م  علیہ السلام  سے روایت ہے کہ یہ آفات  نیک اور بد دونوں قسم کے افراد تک پہنچتی ہیں اور خدا نے ان آفات کو دونوں گروہوں کی اصلاح کا ذریعہ بنایا ہےلیکن جو بلائیں صالح افراد کو پہنچتی ہیں وہ نعمات اور الطاف الہی کی یادہانی کے طور پر ہوتی ہیں جن سے وہ بہرہ مند تھےاور یہ بلائیں ان کے صبر و شکیبائی میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہیں۔[68]

۶۔۴- صالحین کی آزمائش مکافات عمل نہیں

مخفی نہ رہے کہ جو بلائیں انبیاء، آئمہ اور اولیاء الہی پر نازل ہوتی ہیں وہ ان کے برے اعمال کا نتیجہ نہیں ہیں ، بلکہ ان کی علت یہ ہے کہ صلحاء کا مقام و منزلت بلند ہو  صحیحہِ علی بن رئاب میں یہی مطلب وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان ہوا کہ امام صادق علیہ السلام سے قول خدا وندِ متعال  وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم[69] )ہر مصیبت جو تم پر نازل ہوتی ہے وہ ان اعمال کا نتیجہ ہے جو تم نے انجام دیئے ہیں( کے بارے میں سوال کیا گیا  کہ آیا وہ تمام بلائیں جو امیر المومنین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام پر نازل ہوئیں کیا ان کے اعمال کا نتیجہ تھیں ؟ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ حضرات معصوم عن الخطا تھے تو امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :  حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بغیر کسی گناہ کا ارتکاب کئے ہر روز و شب استغفار کرتے تھے۔ خدائے متعال اپنے اولیاء کو بغیر کسی گناہ کے مصائب و آلام میں مبتلاء کرتا ہے تا کہ ان امتحانات کی نسبت ان کو جزاء دے۔[70]

اسی طرح عبدالرحمٰن بن حجاج سے روایت ہے کہ امام صادق سے ان آزمائشات کے بارے میں سوال ہوا جو خدا بندہِ مومن پر نازل کرتا ہے تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:  رسول خدا  صلی اللہ علیہ و  آلہ وسلم  سے سوال کیا گیا کہ اس دنیا میں کون آزمائشا ت سے سب سے زیادہ روبرو ہوتا ہے، کس پر بلائیں سب سے زیادہ نازل ہوتی ہیں ؟ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بلا اور آزمائش کے اعتبار سے سب سے زیادہ سخت افراد پیغمبران الہی علیہم السلام ہیں [ یعنی سب سے زیادہ بلائیں پیامبران پر نازل ہوتی ہیں] ان کے بعد بالترتیب مومنین ہیں ان میں بھی جو ایمان کے لحاظ سے زیادہ کامل ہیں بلاوں کا نشانہ زیادہ بنتے ہیں ۔ پس جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہے اسی قدر اس پر بلا اور امتحان کی سختی ہےاور جس کا ایمان جس قدر کمزور ہے اس قدر اس پر بلاء و مصیبت بھی کم ہے۔[71]   اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر گناہگار بندے مصیبتوں اور بلاو ں کا شکار ہیں تو وہ ان کا امتحان اور آزمائش نہیں بلکہ مکافات عمل ہے اور اولیائے الہی کا امتحان سب سے زیادہ سخت ہے اور اس کے بعد بتدریج مومنین اپنے ایمان کے درجات کے اعتبار سے مبتلائے آزمائش ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ایک اور حدیث مبارکہ میں نقل ہوا ہے کہ خدا جس وقت کسی بندے کو دوست رکھتا ہے اس کو بلاوں میں غوطہ زن کر دیتا ہے۔[72]

مندرجہ بالا بیان سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ مکافات عمل کا منشاء غضب الہی ہے اور اولیائے الہی کی آزمائشات کا منشاء سراسر رحمت خدا وندی ہے اور وہ آیت جو بیان کی گئی اس سے اولیائے الہی تخصصاً خارج ہیں کیونکہ یہ آیت مصیبت کا سبب گناہ اور ارتکاب بد عملی کو بیان کرتی ہے اور اس بیان میں وہ اشخاص شامل نہیں ہو سکتے جو ہر قسم کے گناہ و عمل زشت سے محفوظ و مامون ہیں[73]۔پس اولیائے الہی کے لئے مکافات عمل نہیں بلکہ  یہ امتحانات ان کے مقام و منزلت کی بلندی اور  خدا کے قرب کا ذریعہ ہیں۔

یہاں یہ بات مخفی نہ رہے کہ جو شخص بھی  اپنے گناہوں اور بد اعمالیوں کے سبب مصیبتوں میں مبتلاء ہو اور ان پر صبر کرے اور خدا سے کوئی شکوہ شکایت نہ کرے تو خدا وند متعال اپنے فضل و لطف سے اس شخص کی تطہیر کا انتظام کرتا ہے اور اس کے مقامات کو بلند فرماتا ہےاور اس کے صبر کی جزاء اس کو عنایت کرتا ہے۔اس مطلب کو امام صادق علیہ السلام اپنے والد و اجداد سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ امام امیر المومنین علیہ السلام روایت ہے کہ '' امام علیہ السلام ، حضرت سلمان فارسی کی عیادت کو گئے اور فرمایا  اے سلمان اگر ہمارے شیعوں کو درد آلام ملتے ہیں  تو وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ہیں ، اور یہ جسمانی امراض ان گناہوں کو دھو ڈالتے ہیں۔ سلمان علیہ السلام نے فرمایا : کیا اس تطہیر علاوہ بھی انہیں کوئی جزاء ملتی ہے؟ امام علی علیہ السلام نے فرمایا : ہاں اس مصیبت پر صبر کرنے اور خدا وند متعال کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی پاداش بھی تمہارے لئے ہے اور تمہارے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور تمہارے درجات بلند ہوتے ہیں[74]۔  اسی مطلب کی ایک اور حدیث امام صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے کہ اگر کوئی ایک رات بیماری میں بسر کرے اوراس پر صبر کرے تو خدا اس کو ساٹھ سال کی عبادت کا ثواب مرحمت فرماتا ہے۔[75]

۵- آخری سوال

آئمہ اور اولیا کو خدا نے جو مناصب و مراتب عنایت کئے ہیں وہ ان کو امتحان سے پہلے ہی عنایت کردیئے تھے وہ جس وقت دنیا میں آئے اسی وقت سے اپنے مناصب کے حامل تھے یہ الگ بات کہ اس منصب کا اظہار انہوں نے ایمائے ایزدی پر اس کے مخصوص و معین وقت اور مقام پر کیا، پھر ان سے اسقدر سخت امتحانات کیوں لئیے گئے؟

۱۔۵- جواب

اس سوال کے کچھ ممکنہ جوابات ہو سکتے ہیں۔

۱۔  خدا نے ان ہستیوں کا امتحان اپنے علم میں لیا وہ اس میں کامیاب رہے ان کو دنیا میں بھیج کر خدا نے ان کو امتحانات میں اس لئے مبتلا کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ خدا کا انتخاب درست تھا اور اس کے ان پاکیزہ بندوں نے اپنے ارادے اور اختیار کے ہمراہ ان امتحانات اور ابتلائات میں ثابت قدمی دکھائی ہے اور وہ اس امتحان سے پہلے جس مقام اور منزلت پر تھے اسکا اثبات کیا ہے کہ وہ اس مقام و مرتبہ کے واقعی اہل تھے۔۔مزید بر آں ہم زیارت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں پڑھتے ہیں کہ خدا نے ان کا امتحان لیا[76] اور ان کو کامیاب پایا اور ان کو درجات دئیے تو یہ امتحان خدا نے اپنے علم میں لیا تھااسی وجہ سے دنیا میں آنے کے بعد اس کا اظہار ضروری تھاکہ وہ اپنے امتحانات میں کامیاب ہوئی ہیں جس کے سبب ان کو مراتب عنایت ہوئے ہیں ورنہ کمزور عقیدہ لوگ اور جاہل خدا پر یہ اعتراض داغ دیتے اگر ان ہستیوں کا امتحان بھی لیا جاتا تو ممکن تھا یہ بھی امتحانات کے زیر اثر لغزش کا شکار ہو جاتیں۔اسی سبب خدا نے اپنے اولیاء کا اس دنیا میں سخت ترین امتحان لیا کہ لوگوں پر ثابت ہوجائے کہ ان کو مراتب حتیٰ نبوت و امامت بھی ان کی اہلیت کی بنیاد پر عطا ہوئے ہیں اور خدا نے یونہی کسی کو منتخب نہیں کیا ہے۔اسی ضمن میں ہم دیکھتے ہیں محمد صلی اللہ و علیہ آلہ وسلم اور کی پاکیزہ آل کا سب سے سخت امتحان لیا گیا جس کی بہتر توضیح کے لئے ضروری ہے کہ تاریخی کتب کی جانب رجوع کیا جائے کہ رسول اللہ ، امیر المومنین ، جناب زہرا،  امام حسن و حسین اور دیگر آئمہ اطہار علیہم السلام اور ان کے سچے محبین پر کیا گذری تاکہ ثابت ہو سکے کہ ان کے بلند مراتب انہی امتحانات کا نتیجہ تھے جو خدا نے پہلے اپنے علم میں لئے اس کے بعد انہیں منصوص کیا اور دنیا میں اسکے اظہار کے لئے عملی طور پر ان آزمائشات سے گذارا۔

۲۔  امتحان درجات کی بلندی کے لئے ہے آئمہ اور انبیا و اولیا کا امتحان بہ این معنی لیا گیا کہ لوگوں پر ان کے بلند درجات کی حقیقت واضح ہوجائے کہ انہوں نے جو مقام و مرتبہ حاصل کیا ہے انہی سختیوں کو جھیل کر حاصل کیا ہے۔

۳۔ انبیا اور آئمہ کا امتحان اس لئے لیا گیا کہ جو لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ ذوات جو قرب خدا کی منزل پر اور اسکی جانب سے پیغام بندوں تک پہنچانے پر معمور تھے اور جنکا رابطہ خدا کے ساتھ بذریعہ وحی استوار تھا، خدا جب ان کو مصائب اور شدائد میں مبتلا کرتا ہے تو باقی بندے جو اسکی جانب سے مناصب اور امور کی انجام دہی کے لئے نہیں چنے گئے ان کو بغیر امتحان اور آزمائش کے کوئی مقام و مرتبہ یا منصب کیونکر مل سکتا ہے؟

۴۔ بندگان خدا جن کی محبت کا دم بھرتے ہیں وہ یہ جان لیں کہ جب ان کے محبوب و ممدوح نے سختی میں زندگی گذاری ہے تو ان پر جو سختیوں اور مصائب کی بارشیں ہیں وہ ان میں ثابت قدم رہیں اور انبیا و اولیا کا اتباع کرتے ہوئے خدا کے راستے پر گامزن رہیں۔ راہ حق میں استقامت اور حوصلہ  ٹوٹنے نا پائے اور یہ بات سمجھ لیں کہ امتحان سنت الٰہی ہے جس سے گذر کر ہی خدا اسکے رسول اور ان کے قرابت داروں سے محبت کا ثبوت فراہم کیا جاسکتا ہے

۵۔ہر چند اولیاء کو مراتب پہلے عنایت ہوئے اور اس کے بعد انہیں اس دنیا میں بھیجا گیالیکن وہ بھی خدا کے بندے ہیں اور خدا کی یہاں معنوی مراتب کی کوئی حد و انتہا نہیں لہذا انہیں اس دنیا میں بھی امتحانات سے روبرو کیا گیا تاکہ وہ اپنے حاصل شدہ درجات کو اور معنوی بلندیاں دے سکیں اور جس مقام محمود کا وعدہ خدا نے کیا ہے اس کو پا لیں۔

۶- نتیجہ بحث

پس فلسفہ مصائب بالخصوص صالحین و اولیائے الٰہی سے امتحان لینے کا فلسفہ، تربیت و پرورش روح و جان ہے اور امتحان و ابتلا تکامل معنوی کا وسیلہ ہے ۔ انبیا، اولیا اور صالحین کی زندگی میں درد و رنج، آلام و مصائب کا وجود اس لئے ہے کہ وہ انسانیت کے لئے کامل نمونہ عمل بن سکیں کیونکہ جس شخص نے خود امتحان کی منازل طے نہیں کی ہوں اور جو سختیوں اور ابتلائات کا شکار نہ ہوا ہو وہ دوسرے غم گزیدہ اور مبتلائے آزمائش لوگوں کے لئے نمونۂ عمل نہیں بن سکتا۔ اور اسی  طرح اولیائے خدا کے امتحانات  ان کی خدا سے شدید محبت کا اظہار ہیں جس کے ذریعے خدا ان کے مقامات  کو بلند کرتا ہے اور اپنا قرب عنایت کرتا ہے تاکہ لوگوں پر حجت اور دلیل قائم ہو کہ اولیائے کو مراتب نصیب ہوئے وہ خدا نے ان سختیوں کے تحمل کے بعد عطا کئے ہیں جن کے برداشت کرنے کا حوصلہ دیگر لوگوں میں نہیں تھاـ

 

منابع و مآخذ

۱۔ قرآن کریم مع  فارسی ترجمہ قمشہ ای۔۔۔ انتشارات آئین دانش۔۔ پائیز ۱۳۹۱ ھ۔ش

۲۔ قرآن کریم مع اردو ترجمہ۔۔۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی۔۔جامعہ العلوم انوار القرآن اسلام آباد پاکستان

۳۔ترجمہ  المفردات فی  غریب القرآن۔۔ ابوالقاسم حسین بن محمد راغب اصفہانی۔۔ دفتر نشر نوید اسلام

۴۔ اللغۃ العربیہ۔۔۔ چاپ فروری ۱۹۸۱ کراچی پاکستان

۵۔ نہج البلاغہ۔۔۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی۔۔۔ ناشر انصاریان۔۔ ۲۰۰۹ میلادی

۶۔بیست گفتار۔۔ شہید مرتضیٰ مطہری۔۔۔ انتشارات صدرا چاپ دوم بہمن ۱۳۸۲ ھ۔ش

۷۔ دام عاشقی/آزمائش انسان در قرآن۔۔ مصنف جعفر موسوی نسب۔۔۔ انٹرنیٹ

۸۔ عدل الہی۔۔ شہید مرتضیٰ مطہری۔۔۔ناشر کوثر تحقیقی مرکز کراچی۔۔۔ جمادی الثانی ۱۳۹۲ ہجری

۹۔ تاریخ فلسفہ۔۔ ویل ڈرانٹ۔۔۔ مترجم عباس زریاب خوئی۔۔۔ انٹرنیٹ

۱۰۔ میزان الحکمہ۔۔۔ محمد محمدی ری شہری۔۔۔۔ناشر دارالحدیث۔۔ ۱۳۸۴

۱۱۔ الاقتصاد الھادی الیٰ طریق الرشاد۔۔ شیخ طوسی۔۔ناشر مکتبہ چہل ستون

۱۲۔ مستدرک الوسائل۔۔۔ محدث نوری میرزا حسین طبرسی۔۔ ناشر آل البیت

۱۳۔ الکافی۔۔۔ شیخ کلینی۔۔۔ناشر دار الحدیث

۱۴۔ فرھنگ سخنان امام حسین۔۔محمد دشتی۔۔۔قم ایران

۱۵۔ بحار الانوار۔۔۔ ملا باقر مجلسی۔۔۔ ناشر دارالکتب الاسلامیہ

۱۶۔ تلخیص محاضرات فی الالہیات۔۔۔ علی ربانی گلپائگانی۔۔۔ موسسہ امام صادق قم// ۱۳۹۵

۱۷۔ تفسیر نور الثقلین۔۔۔ عبد علی بن جمعہ العروسی الحویزی۔۔ چاپخانہ علمیہ ۱۳۸۳

۱۸۔ تعلیقہ نہایہ۔۔۔۔ آیت اللہ مصباح یزدی۔۔ انتشارات موسسہ آموزشی و پژ وہشی امام خمینی ۱۳۹۳

۱۹۔ جامع الاحادیث الشیعہ۔۔۔حسین طباطبائی بروجردی۔۔۔ ناشر مطبعۃ المساحۃ  طہران۔۔۔۱۳۸۰

۲۰۔ ترجمہ بدایہ المعارف الالہیہ فی عقاید الامامیہ۔۔آیت اللہ محسن خرازی مترجم سیروس متقی نژاد۔۔انتشارات احسن الحدیث ۔۔۱۳۷۲

۲۱۔  مفاتیح الجنان۔۔۔ شیخ عباس قمی۔۔۔  ناشر انصاریان۔۔قم

۲۲۔ تفسیر المیزان۔۔۔ علامہ طباطبائی۔۔۔۔دارالکتب الاسلامیہ۔۔ طہران ۱۳۷۵

 

 

 

 

 

 



[1] مفہوم ایہ ۵۲ سورہ طہ

[2] سورۃ الملک آیہ ۱۳-۱۴

[3] سورۃ النمل آیہ ۷۴ و ۷۵

[4] سورہ فرقان ۵۸

[5] سورۃ الانفال آیہ ۳۷

[6] بیست  گفتار ۔۔ شہید مرتضیٰ مطہری ص ۔ ۱۴۸۔۱۴۹

[7] لغۃ العربیہ باب بلاء

[8] مفردات راغب اصفہانی

[9] دام عاشقی ۔۔آزمایش و امتحان انسان در قرآن  مصنف جعفر موسوی ۔۔۔ص ۹

[10] سورۃ البقرہ آیہ ۱۵۵

[11] سورہ مومنون آیہ ۳۰

[12] سورۃ  العنکبوت آیہ ۲ و ۳

[13] سورۃ  الملک آیہ ۰۲

[14] سورۃ الانسان آیہ ۲

[15]  سورۃ الانبیاء آیہ ۳۵

[16] سورۃ آل عمران آیہ ۱۸۵-۱۸۶

[17] آئندہ مقامات پر امتحان الہی کی عمومیت پر تفصیلاً بحث ہوگی

[18] سورہ آل عمران آیہ ۱۸۵

[19] سورۃ  الطور آیہ ۲۱

[20] سورۃ الاسریٰ آیہ ۲۰

[21] سورۃ الانسان آیہ ۳

[22] سورۃ الاسریٰ آیہ ۸۵

[23] سورۃ طٰہٰ آیہ ۷

[24] سورۃ الاحزاب آیہ ۱۰

[25] دام عاشقی جعفر موسوی نسب ص ۲۱

[26] سورۃ محمد آیہ ۳۱

[27] سورہ حجرات آیہ ۱۶

[28] سورہ محمد آیہ ۳۰ و ۲۹

[29] سورہ آل عمران آیہ ۱۵۴

[30] سورہ آل عمران آیہ ۱۵۴

[31] سورہ انعام آیہ ۴۲

[32] سورہ اعراف ۹۴

[33] سورہ شوریٰ آیت ۲۷

[34] سورہ بقرہ آیہ ۱۵۵

[35] تلخیص محاضرات فی الہیات ، علی ربانی گلپائگانی ص ۱۶۶

[36] سورہ انشراح آیہ ۵-۸

[37] تلخیص الہیات علی ربانی گلپائگانی ص ۱۶۶

[38] سورہ شوریٰ آیہ ۳۰

[39] سورہ اعراف ۹۶

[40] سورہ اعراف آیہ ۱۳۰

[41] میزان الحکمۃ جلد ۲ ص ۵۷۷

[42] تلخیص الہیات ص ۱۶۶

[43] سورہ علق ۶-۷

[44] سورہ روم ۴۱

[45] تعلیقہ نہایہ ص ۴۷۳

[46] ترجمہ بدایۃ المعارف الالحہیہ فی عقائد الامامیہ۔۔ جلد ۱، ص ۱۵۴

[47] شرح اشارات جلد ۳، ص ۳۲۰-۳۲۳ نقل از ترجمہ بدایہ العارف الاہیہ فی عقائد الامیہ

[48] الاقتصاد الھادی ۔۔شیخ طوسی۔۔ ص  ۳۱۔۔از انٹر نیٹ

[49] سورہ حج آیہ ۶۱

[50] عدل الہی ۔۔ شہید مرتضیٰ مطہری ص ۱۷۲ و ۱۷۳

[51] تاریخ فلسفہ ویل، مترجم ڈاکٹر عباس زریاب، ص ۲۴۹، ۲۵۰

[52] عدل الہی ، شہید مرتضی مطہری، ص ۱۶۴ تا ۱۶۶

[53] نہج البلاغہ، ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی، مکتوبات، مکتوب نمبر ۳۵

[54] عدل الہی ، شہید مرتضی مطہری ، ص ۱۸۵

[55] عدل الہی ، شہید مرتضی مطہری، ص ۱۷۸ تا ۱۸۱

[56] سورہ بقرہ آیہ ۲۱۴

[57] میزان الحکمۃ جلد ۲ ص ۱۶۹

[58] میزان الحکمۃ جلد ۲ ص ۵۷۹

[59] اصول کافی جلد ۲ صفحہ ۲۵۵، شیخ یعقوب کلینی

[60] فرہنگ سخنان امام حسین ، دشتی ص ۱۲۵، فارسی ترجمہ بحار الانوارعلامہ مجلسی  جلد ۱۵ ، ص ۱۹۴۔

[61] کافی ، جلد ۲، باب شدت ابتلائے مومن، حدیث ۲

[62] مستدرک الوسائل جلد ۲، ص ۴۳۸

[63] کافی ، باب شدت بلا مومن، جلد ۲ حدیث ۲۳

[64] بحار لانوار جلد ۸۱ ص ۱۸۳

[65] کافی باب شدت بلائے مومن، حدیث ۱۵

[66] نہج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی خطبہ ۲۹۱

[67] سورہ بقرہ ۱۵۵-۱۵۸

[68] بحار الانوار جلد ۳ ص ۱۳۹

[69] سورہ شوریٰ آیہ ۳۰

[70] نور الثقلین جلد ۴، ص ۵۸۱

[71] تفسیر میزان جلد ۵ ص ۱۳

[72] تفسیر میزان جلد ۵ ص ۱۳ نقل از کافی

[73] ترجمہ بدایۃ المعارف الالہیہ فی عقائد الامامیہ ص ۱۶۴

[74] جامع الاحادیث جلد ۳، ص ۹۱-۹۲

[75] جامع الاحادیث جلد ۳ ، ص ۹۹

[76] مفاتیح الجنان۔۔ عباس قمی۔۔۔ زیارت مخصوصہ جناب فاطمہ

نظرات  (۱)

14 May 19 ، 00:43 ناشناس
ماشاءاللہ
اردو میں یہ اچھوتاعنوان ہے
جزاک اللہ
پاسخ:
شکریہ

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی