زکریا شہید......
مدینے سے خبر کیسی یہ آئی
دہائی یا رسول اللہ دہائی
سنا ہے عشق آلِ مصطفیٰ میں
سنا ہے جرمِ عشق مرتضیٰ میں
زکریا شہید......
مدینے سے خبر کیسی یہ آئی
دہائی یا رسول اللہ دہائی
سنا ہے عشق آلِ مصطفیٰ میں
سنا ہے جرمِ عشق مرتضیٰ میں
عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا
کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا
ــــــــــــــــــــــــــــ
جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش
اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ سخاوت اگر افلاک کریں
میرا حصہ خس و خاشاک کریں
یہ ہو خوں نابہ فشانی کا اثر
نالے پتھر کو بھی نم ناک کریں
سنا تھا ہوتی ہیں از بسکہ بے ضرر آنکھیں
مگر بنا گئیں اس جسم کو شرر آنکھیں
تمام قصہ ہجر و وصال کی تلخیص
مہ تمام، خنک رات ،رہگذر آنکھیں
غزل عاشورای
کربلا محور افکار حقیقت گردید
ہر شهید آیه ی قرآنِ مودّت گردید
ای مسلمان تو مکن خوف ز فوج باطل
یاد کن کرب و بلا فاتحِ کثرت گردید
لبنان اسرائیل کی 33 روزہ جنگ کے حوالے سے لکهی گئی ایک نظم کے چند اشعار
نقل کرتا ہوں نرالی داستاں
حق و باطل کی لڑائی کا سماں
حق پرستوں کا ادھر چھوٹا سا جھنڈ
اور ادھر اشرار کی سب ٹولیاں
مرتضیٰؑ کی امامت پر ایماں دین و مذہب کا رکنِ رکیں ہے
صاحبِ امر رب کی اطاعت نہ ہو تو دین کامل نہیں ہے
یہ بڑے ظرف کے مرحلے ہیں معترض کیوں میرا نکتہ چیں ہے
رب کے ممدوح کی مدح کرنا کام یہ ہر کسی کا نہیں ہے
ہوا ہے وقت نزولِ زبورِ عصمت کا
صد افتخارِ حرا گھر بنا امامت کا
برائے آبروئے سجدہِ نمازِ عشق
کھلا ہے باب نیا کعبہِ موّدت کا
تصورات میں ابھرے جو نقش ہائے وفا
طواف دل نےکیا کعبہِ مودت کا
وقارِ زیست علی محورِ حیات علی
دیار عشق میں حق کی تجلّیات علی
شہود و شاہد و مشہودِ کائنات علی
ہے کنزِ مخفی خدا کنزِ بیِّنات علی
رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے
دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے
تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد
اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے
صائب جعفری:
۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ نے غالب کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعری ادبی نشست کا اہتمام کیا جس میں تمام شعراء نے غالب کی مختلف غزلوں پر تضمین پیش کی وہیں راقم الحروف صائب جعفری نے غالب کی ایک زمین میں چند ابیات کہنے کی جسارت کی اور غالب کے مصرع "طاقت بیداد انتظار نہیں ہے" پر تضمین کی جو پیش خدمت ہے...
گلشن احساس پُر بہار نہیں ہے
کیونکہ میسر ترا جوار نہیں ہے
.
۱.کفر و نفاق و شرک کے مرگ و مفر کا نام
شعبان ہے لقائے خدا کے سفر کا نام
۲.عالم بعرض وسعتِ شوقِ وصالِ یار
ہے نفسِ مطمئنہ کی فتح و ظفر کا نام
۱.ہوگئی ظلم و ستم کی انتہا بعد رسول
اک قیامت ہے مدینے میں بپا بعد رسول
۲.دو جہاں کی سلطنت رکھتی ہے جو زیر ِنگیں
آج ہے دربار میں بے آسرا بعد رسول
۱.اک حشر کا ساماں تھا اس سال مدینے میں
ہیں بعد نبی زہرا بے حال مدینے میں
۲.اے پیر فلک کیسی بیداد ہے یہ آخر
بے آس محمد کی ہے آل مدینے میں
حسنین پہ ہے آفت کی گھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
روتے ہیں نبی روتے ہیں علی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
بابا کی جدائی میں زہرا محروم ہیں اشک بہانے سے
رونے پہ لگی ہے پابندی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
وہ جس کے ناز اٹھائے خدا تعظیم کریں جس کی احمد
دربار میں ہے بے آس کھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
ہو سکے تو یہ وصیت ہے نبھانا اے علی
غم میں زہرا کے نہ دل اپنا جلانا اے علی
دمِ رخصت یہ فقط آپ سے کہنا ہے علی
رات کے وقت مجھے غسل و کفن دینا تمہی
ہو جنازے میں نا شامل میرے کوئی بھی شقی
قبر بھی دنیا سے رکھنا اے علی تم مخفی
بہرِ رب میری وصیت کو نبھانا اے علی
سلیقہ ایک ہی جیسا محمد اور جعفر کا
قرینہ ایک ہی ابھرا محمد اور جعفر کا
ہے ریشہ ایک ہی حقا محمد اور جعفر کا
نہیں فرق اک نہیں ابن محمد اور محمد میں
شمائل میں خصائل میں فضائل اور ابجد میں
نتیجہ ایک ہی نکلا محمد اور جعفر کا
۵ جمادی الاولیٰ جناب زینب کبریٰ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے چند اشعار
ـــــــــــــــ
اسی عنوان سے کھولا گیا باب زینب
دین اسلام ہے دراصل شباب زینب
.....
عالم خلق میں تکرار کا امکاں ہی نہیں
دہر میں ڈھونڈئیے اب آپ جواب زینب
کبھی جو قصہِ حسرت سنانا پڑتا ہے
زمیں کو بامِ فلک سے ملانا پڑتا ہے
ہوس کو جلوہِ جاناں کی آرزو کے لئے
دل و نظر کو بہت آزمانا پڑتا ہے
چند رباعیات.... اہل ذوق کی نظر
رباعی
فطرت یہ ہماری ہے ازل سے واللہ
دکھ درد پہ اپنے نہیں کرتے آہ آہ
دکھتا ہے اگر دل تو یہی کہتے ہیں
لایوم کیومک* یا.اباعبداللہ
* ک ساکن پڑھی جائے
دامن پکڑے مشکل تیرا جب جب
اور قسمت دکھلائے تجھ کو کرتب
صدق دل سے ہونٹوں پر لا اس دم
زینب زینب زینب زینب زینب
اس طرح سلیمانی نے رفعت پائی
عباس کے مقصد پہ شہادت پائی
ٹکڑے ٹکڑے بدن نےکھولا یہ راز
قاسم نے قاسم سے نسبت پائی