آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا(منقبت)
آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا
دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا
”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور
”لولو و مرجان" کو عصمت کا دھارا مل گیا
تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے
خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا
شورشِ باطل سے جب پنہاں ہوا حق کا نشاں
المدد یا فاطمہ زہرا پکارا مل گیا
جس دفاعِ حق کی ڈالی فاطمہ نے داغ بیل
مرجعیت سے اسے اک استعارہ مل گیا
کیسا جھگڑا بر سرِ نار و جناں، پائیں گے سب
دستِ زہرا سے جنہیں جس کا اشارہ مل گیا
مرضئِ معبود کا محصول جانوں کا اگر
چشمِ حسرت کو بقیّع کا نظارہ مل گیا
اس جہانِ رنگ و بو سے کیا غرض اس کو رہی
بہرِ سجدہ جس کو سنگِ در تمہارا مل گیا
شکر ہے اس مے کدے میں ،قم کے، بادہ نوش کو
جرعہ جرعہ ہی سہی شربت گوارا مل گیا
رحمتِ عالم کے گھر تجسیمِ رحمت کے طفیل
رحمتِ یزداں کو صائب استعارہ مل گیا
۱۳ مارچ ۲۰۱۷، ۱۴ جمادی الآخر ۱۴۳۸
قم المقدس
آگئئں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا۔۔ یہ مصرع کراچی کی ایک شعری محفل کا طرحی مصرع تھا جس پر میرے والد محترم ثمر اختر جعفری