ہیں ستون عرش، رمزِ لوح و کرسی فاطمہ
تہہ بہ تہہ ظلمات میں نورِ الہی فاطمہ
کر کے سرور کو طلب اللہ نے اسریٰ کی شب
مثل قرآن قلبِ احمد پر اتاری فاطمہ
ہیں ستون عرش، رمزِ لوح و کرسی فاطمہ
تہہ بہ تہہ ظلمات میں نورِ الہی فاطمہ
کر کے سرور کو طلب اللہ نے اسریٰ کی شب
مثل قرآن قلبِ احمد پر اتاری فاطمہ
نسیمِ جانفراء صحنِ حرم میں یہ پکار آئی
خدا کا شکر گلزارِ مودت میں بہار آئی
کھلا ہے غنچہِ بنتِ نبی نرجس کے آنگن میں
ہوئے مدہوش قدسی بھی جو بوئے گل عذار آئی
ایسا کچھ اہتمام ہو جائے
مدحِ خیر الانام ہوجائے
ان سے منسوب ہوکے نغمہِ دل
قابلِ احترام ہو جائے
فکر کے پرکار کر تدویر خاص
ذہن میں ابھری ہے اک تصویر خاص
فہم، کر فکرِ رسا سے ساز باز
کر فراست آج کچھ تدبیر خاص
روشنائی لے شعورِ عشق سے
جس دم خیال سوئے شہِ کربلا گیا
قرطاس نورِ عشق و وفا میں نہا گیا
بوئے ریاضِ خلد سے مہکے دل و دماغ
خامہ سلیقہ مدحت سرور کا پا گیا
ستارِ عشق پر چھڑی ہے منقبت حسین کی
صبا سے آرہی ہے بوئے انسیت حسین کی
فرشتے دے رہے ہیں آج تہنیت حسین کی
لفظ ومعنی نے حکایات نے دم توڑ دیا،
بات ہی بات میں ہر بات نے دم توڑ دیا
پارسا پھر سے چلا جانبِ زنداں دیکھو
پھر زلیخا کی مدارات نے دم توڑ دیا
فروغِ حسن سے دل کی کسک کا دور ہوجانا
کہاں ممکن شبِ دیجور کا کافور ہوجانا
کب آگہ تھا جمال ِ حسن اپنی قدر و قیمت سے
سکھایا عشق ہی نے حسن کو مغرور ہوجانا
آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلاکر
بیٹھا ہوں مدتوں سے بستی نئی بسا کر
ان تیز آندھیوں میں طوفانی بارشوں میں
دل کا چراغ رکھوں کس طرح سے بچا کر
نذر جون ایلیاء
زمانہ پار، سا ہو جائے گا کیا
فسانہ برملا ہوجائے گا کیا
بنے ہیں آشنا دشمن ہمارے
تو دشمن آشنا ہو جائے گا کیا
تمہارا مجرم اے میرے آقا تمہارے در پر کھڑا ہوا ہے
جزا سزا کی تو تم ہی جانو، تمہارے ہاتھوں میں فیصلہ ہے
تمہاری چوکھٹ سے متصل ہے لبوں کو ساکت کیا ہوا ہے
نوحہ
ہئے نبی کی آل و بے کسی
،قتل ہو گئے علی نقی
پھر سے کربلا بپا ہوئی
قتل ہو گئے علی نقی
۔ ہجو
نسب اسرار کا پوچھو تو جاکر اس کی مادر سے،
کہ چہرہ اس قدر حضرت کا کیوں ملتا ہے بندر سے
غلامِ نفس ہے ابلیس سے بھی ہے ذرا بڑھ کر
مکر جائے گا اک دن دیکھنا یہ ربِّ اکبر سے
طرحی ردیف "سے بہتر "
کوئی ادراک لے آ تو مرے ادراک سے بہتر
کہ دنیا میں نہیں کوئی شہِ لولاک سے بہتر
لباسِ فقر ہے فخرِ محمد، جاننے کے بعد
نہ بھائی قلب کو پوشاک اس پوشاک سے بہتر
مصرع ہزار بیت میں یہ انتخاب ہے
عیدِ غدیر حکمِ رسالت مآب ہے
روشن ہوا ہے جس سے مرا ماہتابِ فکر
عشق علی کا سینہ میں وہ آفتاب ہے
جو گوشِ فکر سے ٹکرائی گفتگوئے امیر
خیال جانے لگا خودبخود بسوئے امیر
خدا کا شکر ہے باقی ہوں اپنی فطرت پر
کہ پاک طینتِ آدم ہے جستجوئے امیر
عرفہ ہے عبادات کی توقیر کا دن ہے
انسان کے کردار کی تعمیر کا دن ہے
جوبن پہ ہےزُخَّارِ کرامات الٰہی
یہ خاک کا اکسیر میں تغییر کا دن ہے
عید الاضحیٰ
دینے پیغامِ محبت شمس ابھرا عید کا
ہو مبارک سب کو دن اک اور آیا عید کا
ایک دوجے کے گلے لگ جاو نفرت چھوڑ کر
یوں مناو مل کے خوشیاں ہے زمانہ عید کا
صولتِ دینِ خدا ہے دبدبہ عباس کا
ماوراء ادراک سے ہے مرتبہ عباس کا
جلوہِ نورِ دعائے بنتِ احمد ہے وجود
مصحفِ تہذیبِ حیدر باوفا عباس کا
جوبن پہ ہے جہان میں آیا شباب حق
بطحا سے وہ طلوع ہوا آفتاب حق
بن کر جوابِ طعنہِ ابتر بہ کرُّ و فر
آغوش میں خدیجہ کی ہے انتخابِ حق
تبلیغِ دین و شرعِ خدا وند کے لئے
اترا بشکلِ بنتِ پیمبر نصابِ حق
عرفان رب کے گل کی مہک احساں ہے امامِ صادق کا
قلب عشاقِ نبی کی دھڑک، احساں ہے امامِ صادق کا
جہل و شک کے اندھیاروں میں، الحاد و کفر کی آندھی میں
یہ آتشِ علم حق کی لپک، احساں ہے امامِ صادق کا
جب ہند کے بت خانے میں اسلام تھا محبوس
ہوتی نہ تھی تشریک مسلمانوں کو محسوس
اسلام سے عاری تھے مسلمانوں کے افکار
افرنگ کے پھندوں میں سیاست تھی گرفتار
https://m.youtube.com/channel/UCbSiNuE-cWAzb4QM2npzMhg
صائب جعفری کی شاعری اور نثری افکار
https://m.youtube.com/channel/UCoOi1aJEfDW8z2lMRuxygRQ
ادبیات اور دینیات کے دروس کا چینل
دونوں چینلز کو.سبسکرائب لائیک اور شئیر کریں
عیوب قافیہ
جمع و تدوین :صائب جعفری
۱۔ایطا یا شائیگاں
جب مطلع کےدونوں مصرعوں میں روی کا حرف ایک ہی معنی رکھتا ہو کہ جس سے تکرارِ معنی ثابت ہوتی ہو ایسے لفطوں کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں ہے اور اس عیب کا نام ایطا ہے، لیکن یہ قید صرف مطلع کے لئے ہےابیات میں ایطاء ہو تو شعرائے اردو نے جائز رکھا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ حرف روی ایک ہی معنی کا مکرر ،مطلع میں آئے۔ کاملاں اور قاتلاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ قاتل اور کامل میں حرف روی لام ہے اور دونوں لفظوں کے معنی الگ الگ ہیں اور الف نون وصل و خروج ہیں اس لئے یہ قافیہ جائز ہے لیکن قاتلاں اور عالماں کا قافیہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ الف و نون کو روی نہیں بنا سکتے کیونکہ نون دونوں قافیوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے اور افادہِ معنئِ جمع دیتا ہے دونوں حرفوں کو نکالنے کے بعد قاتل اور عالم ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس لئے اگر ان کو بلحاظ نون، روی سمجح کر قافیہ کریں یہ ایطا ہے کیونکہ دونوں لفظوں میں الف نون الحاقی ہےاور ایک ہی معنی میں ہے۔
جادہ عرفاں پہ چلنے کا سلیقہ سیکھ لیں
منزلوں کے پار اترنے کا قرینہ سیکھ لیں
فاطمہ کے نام کی تسبیح پڑھ کر آپ بھی
کشفِ محجوباتِ عالم کا وظیفہ سیکھ لیں
یوں لفظ مستعار ہیں قرآن کے لئے
لکھنی ہے منقبت شہِ ذیشان کے لئے
تعمیر کرکے کعبہ یہ کہنے لگے خلیل
تیار ہوگیا ہے یہ مہمان کے لئے
جو عشق میں حیدر کے گرفتار ملے گا
اللہ و محمد کا وفا دار ملے گا
جو عزمِ ولایت کا علم دار ملے گا
باطل سے وہی بر سرِ پیکار ملے گا
دربدر یونہی بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے
پوچھئے سورہِ انساں سے سخاوت کیا ہے
یہ کھلا سجدہ زہرا سے حقیقت کیا ہے
عبد و معبود کے رشتے کی صداقت کیا ہے
پڑھ کر ثنائےمرتضوی، عادیات میں
آئی نظر حیات کی صورت ممات میں
ہنگام یہ ولادتِ شاہِ نجف کا ہے
پھیلا ہوا ہے نورِ خدا شش جہات میں
۰۶ اپریل ۲۰۱۷ء، ۸ رجب ۱۴۳۸
۳۶۔ منقبت
ہیں عرب کا وقار شاہ چراغ
اور عجم کی بہار شاہ چراغ
نامِ نامی ہے آپ کا احمد
اور ہے مستعار شاہ چراغ
کُھل رہا ہے دنیا پر مَہر ِ نور کا در بِھی
وجد میں ہے خالق کے مِہر کا سمندر بھی
مل رہا ہے عالم کو مژدہِ حیاتِ نو
اور قدرتِ حق کا سج رہا ہے محضر بھی
یہ پیام آزادی دیتی ہے غلاموں کو
الطاف و عنایاتِ الٰہی کا یہ در ہے
گھر فاطمہ زہرا کا بڑی شان کا گھر ہے
زخّارِ کرامات ہے رحمت کا سمندر
افلاک کی وسعت ہے جہاں گم یہ وہ در ہے
رہنا ہے مجھے مرضئِ معبود پہ شاکر
دروازہِ زہرا پہ رکھا اس لئے سر ہے
آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا
دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا
”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور
”لولو و مرجان" کو عصمت کا دھارا مل گیا
تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے
خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا
نبی کا تم نے کیا اونچا نام ہے زینب
خدا کا تم پہ درود و سلام ہے زینب
فضلتیں ہوئیں جس پر تمام ہے زینب
کہ عکسِ صولتِ شاہِ انام ہے زینب
عقیلہِ بنی ہاشم سفیر کرب و بلا
تجھی سے دیں کا ہوا انصرام ہے زینب