حسینیہ امام صادق علیہ السلام قم اہران میں غدیر کی.طرحی محفل کے لئے لکھے اور پڑھے گئے اشعار احباب کی نذر
معراج ابتدائے کتاب غدیر ہے
عاشور اک ثبوت صواب غدیر ہے
نشاۃ ہے ثانی خم کی یہ عابد تا عسکری
صبح ظہور عین شباب غدیر ہے
مزمل اور طاھاویاسین کے لئے
*"یا ایھاالرسول خطاب غدیر ہے"*
ــــــــــــــــــــ
اے میرے بابا علی ہم یہ دھیان رکھتے ہیں
ترے عدو پہ تبرا کی ٹھان رکھتے ہیں
بنام سجدہ جبیں پر علی کے سب مجذوب
غدیر خم.کا سجائے نشان رکھتے ہیں
یہی ثبوت ہے کافی طہارت دل کا
کہ دل میں کعبہ کا دل میہمان رکھتے ہیں
برای زیست علی والے مرتضی.کی طرح
اک.امتحان پس از امتحان رکھتے ہیں
یہ اور بات کہ چپ سادھے ہیں پئے وحدت
یہ اور بات کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں
طلوع صبح ظہور اور حشر کی خاطر
*"ہم اپنے پاس غدیری اذان رکھتے ہیں"*
غلو کا فتوی لگا دیجئے مگر کہئے
شعور شعر بھی کچھ بھائی جان رکھتے ہیں
جناب طائر سدرہ پرندگان غدیر
ورائے سرحد سدرہ اڑان رکھتے ہیں
علی کی مدح کے طائر اڑان بھرنے کو
زمین شعر پر لا آسمان رکھتے ہیں
گہے غدیر پہنچ جاتے ہیں گہے کعبہ
ہم اختیار میں اپنے زمان رکھتے ہیں
ہوا کے دوش پہ رکھ دیتے ہیں بنام علی
چراغ جان کے لئے کب مچان رکھتے ہیں
صد آفرین یہ پیران ملک عشق و وفا
مئے غدیر سے دل کو جوان رکھتے ہیں
علی کے عشق کے صدقے ہم ایسے خانہ بدوش
اٹھائے گٹھری میں سارا جہان رکھتے ہیں
جہاں پہ بارہ.مہینے بہار رہتی ہے
غدیر جیساہم اک گلستان رکھتے ہیں
زمیندار کہاں کوئی ہم سا صائب ہم
ہر ایک بیت کے بدلے مکان رکھتے ہیں
۲۸ جولائی ۲۰۲۱