ادا کس سے ہو شکراللہ کی اس خاص نعمت کا
رواں اس شب میں دریا ہو گیا حق و صداقت کا
بشر کوئی مقابل کیا تری عظمت.کے آئے گا
تیری نعلین کی رفعت سے قد ہے پست خلقت کا
کوئی کیا دیکھ پائے گا ترا سایہ زمانے.میں
کہ تو خود آئینہ ہے اصل ہستی کی لطافت کا
اگر طرز حیات مصطفیٰ پر غور کرلیتے
تو پھر شکوہ نہ کرتے آپ ہم کچھ اپنی غربت کا
چٹائی، سوکھی روٹی اور نمک پانی پہ جیتے تھے
مگر کرتے نہ تھے آقا تماشہ اس قناعت کا
کہا الفقر فخری یعنی محتاج خدا ہوں میں
فقط حق سے جڑا رکھتا ہوں رشتہ اپنی حاجت کا
بفیض قال باقر قال صادق عن رسول اللہ
نظارہ گر ہے دل ہر آن نور علم و حکمت کا
یہ اک مرد مجاہد کے شہود حق کا حاصل ہے
بنام صادقیں کھولا ہے اس نے باب وحدت کا
وہ ہو بدر و احد یا ہو قیام زید کی تحلیل
محمد اور صادق سے سبق پڑھ استقامت کا
سحر آغاز ہو فکر مسلمانان عالم سے
تقاضا یہ بھی ہے محبوب داور کی محبت کا
وہ کیا ہوگا عمل.پیرا رسول حق کی سنت پر
وہی جو چھوڑ بیٹھا ہاتھ سے دامان عترت کا
مسلماں ہو تو کیوں دیتے نہیں ہو تم جواب آخر
یہودی قوم کو اس قتل و غارت بربریت کا
فلسطیں پر اگر دل آپکا ہوتا نہیں مغموم
تو پھر اب فاتحہ پڑھ لیجیے اپنی دیانت کا
جہان ظلم میں بھی حوصلہ جینے کا.دیتا ہے
ضعیفوں کو سہارا یا شہا تیری شفاعت کا
اگر تلمیذ رحمانی ہو مشکل نعت کہنے میں
تو لینا جائزہ تو اپنی جلوت اور خلوت کا
قلم حق بین شاعر کا اسے کیا امتی لکھے
جو قائل ہی نہیں دیں کی.سیاسی حاکمیت کا
ملے گا سنت سرکار ہی سے درس اے صائب
شریعت کا عدالت کا سیاست کا حکومت کا
بحق مصطفیٰ اب بھیج دے مہدی کو اے معبود
کہ شیرازہ بکھرتا جارہا ہے ان کی امت کا
صائب جعفری
قم المقدسہ ایران
09/09/2025
7:16 pm
- ۰ نظر
- 10 September 25 ، 03:15