کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۶ مطلب در ژانویه ۲۰۲۵ ثبت شده است

ہے اربعین صائبِ حزیں کا تم سلام لو
اے زائرو! سنو پیام دل کے گوش وا کرو
لگاؤ نعرہ حیدری..... یاعلی....
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
 
 
سلام تم پہ کربلا کی سمت جارہے ہو تم
سلام تم پہ راہ عشق شہ سجا رہے ہو تم
سلام تم پہ عہد عشق کو نبھا رہے ہو تم
سلام تم پہ قلب فاطمہ لبھا رہے ہوتم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
 
لگاؤ نعرہ حیدری... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری... یاعلی
 
قرار قلب کو ہو بے قرار تم یہ جان لو
فرشتوں کے پروں پہ ہو سوار تم یہ جان لو
بہشت تم.پہ ہوتی ہے نثار تم یہ جان لو
نصیب ہوگا شاہ کا جوار تم یہ جان لو
یہ جان لو رسول کی دعا بھی پا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری..... یاعلی
لگاو نعرہ حیدری..... یاعلی
 
زماں مکاں زمیں سما سے ہو بلند  کون ہے
ثبوت عشق مصطفی خدا پسند کون ہے
ہو جسکی کائنات سب نیاز مند کون ہے
جناں ہو جسکے غم کے آنسوؤں میں بند کون ہے
وہ بالیقیں حسین ہے یہی سنا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری...یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری....یاعلی
 
تم آئے ہو برائے اربعین ابن بوتراب
قدم قدم پہ نعمتیں ملیں گی تم کو بے حساب
کھلی ہوئی ہے چشم نم پہ عشق شاہ کی کتاب
بھری ہے جام قلب میں غم حسین کی شراب
اے زائرو! مثال حر قدم.بڑھا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاو نعرہ حیدری... یاعلی
لگاو نعرہ حیدری.... یاعلی
 
تمہیں تو راہ میں ملے گا سایہ آب اور غذا
مگر خیال یہ رہے کہ ہے یہ وہ ہی راستہ
جہاں سے گذرا تھا لٹا حسینیوں کا قافلہ
نہ آب تھا نہ تھی غذا نہ سایہ تھا نہ تھی ردا
سنو! انہیں کی یاد مومنو! منارہے ہوتم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
 
بھری ہوئی حسینیوں سے یہ تمام ارض ہے
اے مومنو! جناب میں تمہاری اب یہ عرض ہے
سنو یہ اربعیں نہیں ہے رسم ایک فرض ہے
غم حسین اجر مصطفیٰ ہے ایک قرض ہے
اسی لئے تو رو رہے ہو اور رلا رہے ہو تم 
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہوتم
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
 
امام عصر کے ہو لشکری تمہیں رہے خیال
عقیدتیں بھی کم نہ ہوں عقیدہ بھی رہے بحال
یزید عصر سے برائت اس سفر کا ہو مآل
تم اس سفر کی گرد منہ پہ ڈال کر بصد جلال
نہیں ہو حامی ظلم کے یہی بتا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاو نعرہ حیدری.... یاعلی
لگاو نعرہ حیدری..... یاعلی
 
رہے گا تا ابد جہاں میں نام حق و پنجتن
یزید وقت کو بتا گئے خمینی بت شکن
محرم اور صفر سے باقی ہے یہ دین کا چمن
اسی کی پیروی میں زئران شاہ پر محن
زمانے کو صراط اربعیں پہ لا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
 
ہیں بند دشمنوں کے ناطقے بس اس کلام سے
حسین یا حسین کی صدا کے التزام سے
لعین کانپتے ہیں اربعیں کے اژدہام سے
تڑپ اٹھا ہے دشمن خدا تمہارے کام سے
حسینیو! زمانے بھر پہ ایسے چھا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری .... یاعلی
 
لگاؤ ہے تمہیں نبی و فاطمہ کے چین سے
حسن کے زور بازو اور علی کے نور عین سے
ہلا دو کاخ کفر و شرک اپنے شور و شین سے
جگاؤ سب جہان کو صدائے یاحسین سے
بتا دو سب کو اشک کس لئے بہا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
 
بتادو سب کو مقصد حسین پہ ہو کاربند
ستم کے سیل کے لئے تمہی بنے ہوئے ہو بند
نجات بے کسوں کی ہے تمہاری مٹھیوں میں بند
یہودیوں پہ اب کرو گے تم در حیات بند
اسی لئے امام حق کو بھی بلا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری .... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
 
کرو یہ عہد ہوگی اب قضا نہیں کوئی صلاۃ
نہ صوم چھٹنے پائے گا نہ ترک ہوگی اب زکاۃ
یہ خمس اور جہاد بھی سبک نہ ہونگے تا حیات
تمام خواہشات نفس کو ملے گی اب ممات
کہ اپنا راستہ حسین سے ملا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
 
پئے رواج امر حق لٹا کے اپنی زندگی
نھی ز منکرات سے سجا کے اپنی زندگی
تولا اور تبرا پر مٹا کے اپنی زندگی
مثال شاہ کربلا بنا کے اپنی زندگی
دکھا دو سب کو کربلا سے درس پا رہے ہو تم
بزور نعرہ حیدری بہشت جارہے ہو تم
لگاؤ نعرہ حیدری... یاعلی
لگاؤ نعرہ حیدری.... یاعلی
.....
صائب جعفری
قم مقدسہ
Aug 09,2024 
2:25 AM
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 25 ، 15:30
ابو محمد

اہل تولیٰ آؤ زباں بے قرار ہے
سر پر مرے تبرا کا سودا سوار ہے

اُس دور کے یزید پہ لعنت ہو بے حساب
اِس دور کے یزید پہ بھی بے شمار ہے

بوزینہ یزید ہے بد عقل و بدقماش
جس کو بھی آج ذکر غزہ ناگوار ہے

لاریب ہیں یزید زمانہ کے خصیتین
سید علی.کے بغض کا جن کو بخار ہے

صیہونیت کے ظلم بیاں جو نہ.کرسکے
وہ.مقعد الاغ کا آئینہ دار ہے

بل.ھم اضل وہی ہے کہ جس بے شعور کو
خون غزہ میں ڈوبے کبابوں سے پیار ہے

شاکر حرام پر ہیں یا ہیں طالب گناہ
جن سے رخ سقیفہ پہ اب تک بہار ہے

دے گالیاں سقیفہ کو لیکن بتا کہ کیوں
امریکیوں کے نام سے گیلی ازار ہے؟

ڈوبے ہوئے ہیں شیعوں کے خوں.میں ترے بھی ہاتھ
گالی کو تو نے سمجھا تبرے کا ہار ہے

جس چوتیا کو.مقصد شہ کی.نہیں.خبر
منبر پہ اس کو لائے جو وہ نابکار ہے

قم اور نجف بناتے انہیں کیسے آدمی
برطانیہ کے.مُوت کا جن کو خمار ہے

امر و نہی حسین کا جس پر نہیں کھلا
بوجہل کی وہ معنوی اک.یادگار ہے

بہتان باندھتا ہے شہ تشنہ کام پر
ابن.زیاد و شمر سا تو نابکار ہے

صائب جعفری
قم.ایران
Sep 12,2024 
4:23 PM

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 25 ، 15:19
ابو محمد

وہ ظل الہی عالم میں رونق دہ محفل ہوتا ہے
یوں آج نظام ہستی کا منظومہ کامل ہوتا ہے

ظلمات کا سینہ چاک ہوا ابلیس کا.ارماں.خاک.ہوا
دنیائے رذائل میں ظاہر خورشید فضائل ہوتا ہے

یوں آج دیار کثرت میں جلوہ فرما وحدت ہوگی
قرآن ناطق پر قرآن سامط نازل ہوتا ہے

بیدار جہاں کو کرتی ہے اقرا بسم ربک کی سحر 
اصنام دور جہالت کا اب جادو باطل ہوتا ہے

جو اول  آخر  ظاہر باطن کا سمجھاتا ہے مطلب
وہ نور بصیرت بعثت پیغمبر  سے حاصل ہوتا ہے

کچھ دیر خیال دنیا سے غفلت کارویہ ہے درکار
یہ وصل الہی کی شب ہے کیوں فیض سے غافل ہوتا ہے

جبریل رکے براق تھما لیکن یہ شرف انساں کو ملا
یہ تنہا عبد ہے جو عالم میں ھو کے داخل ہوتا ہے

پروانۂ شمع حق ہے بہت ناپختہ کار عرصۂ عشق
گر غرفۂ جنت کی خاطر سرکار پر مائل ہوتا ہے

اے راہروئے تبلیغ دیں، یہ رستہ نہیں آسان گذر
اس رہ میں اُحد بھی آتی ہے طائف بھی حائل ہوتا ہے

بے خوف اتار سفینے کو گھبرا نہ تلاطم سے سن لے
اس بحر عشق محمد کی ہر موج میں ساحل ہوتا ہے

تب جاکے کہیں اک بیت ثنا بنتا ہے بہائے بیت جناں
جب علم شعر و خون جگر بھی عشق میں شامل ہوتا ہے

اس در سے ہی ملتا ہے صائب خالق تک.جانے کا.رستہ
جس در پر ریاض امکاں کا ہر ممکن.سائل ہوتا ہے

Feb 07,2024 
2:29 AM

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 25 ، 15:15
ابو محمد
گذرے پت جھڑ کے زمانے آ گیا سرور کا پھول
قدسیوں کے ہیں ترانے آگیا سرور کا پھول
 
وجد میں آئی صبا ڈھلنے لگے نغمے نئے
دل لگا خود گنگنانے آ گیا سرور کا پھول
 
کھل گیا بابِ حوائج، یاس کے زندان سے
نوعِ انساں کو چھڑانے آ گیا سرور کا پھول
 
مثلِ عباسِ دلاور گود میں شبیر کی
قلب کی قوت بڑھانے آ گیا سرور کا  پھول
 
اک نئی طرزِ وغا کرنے رقم میدان میں
تیر کھا کر مسکرانے آ گیا سرور کا پھول
 
جنگ کے میدان میں اپنے گلو کے خون سے
شمعِ دینِ حق جلانے آ گیا سرور کا پھول
 
حق و باطل میں حدِ فاصل بنانے کے لئے
خون میں اپنے نہانے آ گیا سرور کا پھول
 
دیکھ کر صائب سفینہ دین کا ہوتا تباہ
پار کشتی کو لگانے آ گیا سرور کا پھول
2019
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 25 ، 15:12
ابو محمد
متاعِ حسن جس کے صدقے میں یوسفؑ نے حا صل کی
بھلا کیسے کھنچے تصویر اس شکل شمائل کی
تفنگ و تیر نہ شمشیر برّاں ہی حمائل کی
فقط تیغِ تبسم سے الٹ دی فوج باطل کی
ہمک کر تیر گردن پر لیا اور کر دیا تحریر
شکستِ فاش کا افسانہ پیشانی پہ قاتل کی
ہے تیری بے زبانی کا تصّدق لحنِ داودی
جرس نے بے صدا گفتار تیرے لب سے حاصل کی
تمہارے خون سے تحریک پائی انقلابوں نے
میانِ راہِ حق کلفت شکیبائی کی حامل کی
ترا احسان ہے مجھ بے حقیقت پر خدا تو نے
ولائے اصغرؑ بے شیر میرے خوں میں شامل کی
میں نا امید کیوں ہو جاوں جب کہ جانتا ہوں میں
توسُّل سے تمہارے جھولی بھر جاتی ہے سائل کی
علی اصغرؑ ہیں جب باب الحوائج مطمئن ہوں میں
نہ اندیشہ ہے طوفاں کا نہ مجھ کو فکر ساحل کی
رواں قرطاس پر ہے خامہ محسن پئے مدحت
نوائے بلبلِ فردوس ہے آواز اس دل کی
۲۰۰۹ رجب
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 09 January 25 ، 15:04
ابو محمد

راہِ الفت کو اختیار کیا
پھول ہر زخم کو شمار کیا
غنچہِ شاہِ دیں نے کملا کر
ایک صحرا کو مرغزار کیا
تو  نے اپنے لہو کی سرخی سے
حق کے جلووں کو تاب دار کیا
لے کے گردن پہ تیرِ سہ شعبہ
اپنے قاتل کو ہی شکار کیا
تو نے تقریرِ بے زبانی سے
حق و باطل کو آشکار کیا
نور نے تیری مسکراہٹ کے
پردہِ ظلم تار تار کیا
جس طرح شیر تاکتا ہے شکار
تیر کا تو نے انتظار کیا
ہنس کے توڑا غرورِ باطل کو
معجزہ تو نے شیر خوار کیا
شہ کے بے شیر کا کیا مدّاح
یہ کرم تو نے کردگار کیا
خونِ اصغر نے تیغ پر خوں کو
کامیابی سے ہمکنار کیا
الفتِ  شیر خوار نے صائب
کتنے ذرّوں کو شاہکار کیا
2015

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 09 January 25 ، 15:01
ابو محمد