اہل تولیٰ آؤ زباں بے قرار ہے
سر پر مرے تبرا کا سودا سوار ہے
اُس دور کے یزید پہ لعنت ہو بے حساب
اِس دور کے یزید پہ بھی بے شمار ہے
بوزینہ یزید ہے بد عقل و بدقماش
جس کو بھی آج ذکر غزہ ناگوار ہے
لاریب ہیں یزید زمانہ کے خصیتین
سید علی.کے بغض کا جن کو بخار ہے
صیہونیت کے ظلم بیاں جو نہ.کرسکے
وہ.مقعد الاغ کا آئینہ دار ہے
بل.ھم اضل وہی ہے کہ جس بے شعور کو
خون غزہ میں ڈوبے کبابوں سے پیار ہے
شاکر حرام پر ہیں یا ہیں طالب گناہ
جن سے رخ سقیفہ پہ اب تک بہار ہے
دے گالیاں سقیفہ کو لیکن بتا کہ کیوں
امریکیوں کے نام سے گیلی ازار ہے؟
ڈوبے ہوئے ہیں شیعوں کے خوں.میں ترے بھی ہاتھ
گالی کو تو نے سمجھا تبرے کا ہار ہے
جس چوتیا کو.مقصد شہ کی.نہیں.خبر
منبر پہ اس کو لائے جو وہ نابکار ہے
قم اور نجف بناتے انہیں کیسے آدمی
برطانیہ کے.مُوت کا جن کو خمار ہے
امر و نہی حسین کا جس پر نہیں کھلا
بوجہل کی وہ معنوی اک.یادگار ہے
بہتان باندھتا ہے شہ تشنہ کام پر
ابن.زیاد و شمر سا تو نابکار ہے
صائب جعفری
قم.ایران
Sep 12,2024
4:23 PM
وہ ظل الہی عالم میں رونق دہ محفل ہوتا ہے
یوں آج نظام ہستی کا منظومہ کامل ہوتا ہے
ظلمات کا سینہ چاک ہوا ابلیس کا.ارماں.خاک.ہوا
دنیائے رذائل میں ظاہر خورشید فضائل ہوتا ہے
یوں آج دیار کثرت میں جلوہ فرما وحدت ہوگی
قرآن ناطق پر قرآن سامط نازل ہوتا ہے
بیدار جہاں کو کرتی ہے اقرا بسم ربک کی سحر
اصنام دور جہالت کا اب جادو باطل ہوتا ہے
جو اول آخر ظاہر باطن کا سمجھاتا ہے مطلب
وہ نور بصیرت بعثت پیغمبر سے حاصل ہوتا ہے
کچھ دیر خیال دنیا سے غفلت کارویہ ہے درکار
یہ وصل الہی کی شب ہے کیوں فیض سے غافل ہوتا ہے
جبریل رکے براق تھما لیکن یہ شرف انساں کو ملا
یہ تنہا عبد ہے جو عالم میں ھو کے داخل ہوتا ہے
پروانۂ شمع حق ہے بہت ناپختہ کار عرصۂ عشق
گر غرفۂ جنت کی خاطر سرکار پر مائل ہوتا ہے
اے راہروئے تبلیغ دیں، یہ رستہ نہیں آسان گذر
اس رہ میں اُحد بھی آتی ہے طائف بھی حائل ہوتا ہے
بے خوف اتار سفینے کو گھبرا نہ تلاطم سے سن لے
اس بحر عشق محمد کی ہر موج میں ساحل ہوتا ہے
تب جاکے کہیں اک بیت ثنا بنتا ہے بہائے بیت جناں
جب علم شعر و خون جگر بھی عشق میں شامل ہوتا ہے
اس در سے ہی ملتا ہے صائب خالق تک.جانے کا.رستہ
جس در پر ریاض امکاں کا ہر ممکن.سائل ہوتا ہے
Feb 07,2024
2:29 AM
راہِ الفت کو اختیار کیا
پھول ہر زخم کو شمار کیا
غنچہِ شاہِ دیں نے کملا کر
ایک صحرا کو مرغزار کیا
تو نے اپنے لہو کی سرخی سے
حق کے جلووں کو تاب دار کیا
لے کے گردن پہ تیرِ سہ شعبہ
اپنے قاتل کو ہی شکار کیا
تو نے تقریرِ بے زبانی سے
حق و باطل کو آشکار کیا
نور نے تیری مسکراہٹ کے
پردہِ ظلم تار تار کیا
جس طرح شیر تاکتا ہے شکار
تیر کا تو نے انتظار کیا
ہنس کے توڑا غرورِ باطل کو
معجزہ تو نے شیر خوار کیا
شہ کے بے شیر کا کیا مدّاح
یہ کرم تو نے کردگار کیا
خونِ اصغر نے تیغ پر خوں کو
کامیابی سے ہمکنار کیا
الفتِ شیر خوار نے صائب
کتنے ذرّوں کو شاہکار کیا
2015